تمنا تھی کہ ہم بھی روضۂ سرکار پر جاتے
( اسیدالحق عاصمؔ قادری بدایونی)
تمنا تھی کہ ہم بھی روضۂ سرکار پر جاتے
جہاں پر عاشقوں کا آج کل میلا لگا ہوگا
فرشتے عرش سے بہرِ سلامی آرہے ہوں گے
پرِ روح الامیں جاروبِ روضہ بن گیا ہوگا
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
جنید وقت بھی پاسِ نفس کرکے کھڑا ہوگا
کسی کے بخت کی زلفیں سنواری جارہی ہوں گی
کسی کا بخت خوابیدہ جگایا جارہا ہوگا
کوئی دیوانۂ سرکار نوکِ خارِ طیبہ سے
دریدہ دامنِ وحشت کو اپنے سی رہا ہوگا
بصارت کررہی ہوگی طوافِ گنبد خضریٰ
بصیرت کی جبیں پر عکسِ روئے مصطفی ہوگا
ادھر آقا نواسوں کا اتارا باانٹتے ہوں گے
ادھر بیت الشرف والوں کا صدقہ بٹ رہا ہوگا
بوصیری، جامی وقدسی قصائد لکھ رہے ہوں گے
کوئی حسّان نعتِ سرورِ دیں پڑھ رہا ہوگا
کسی کی آنکھ میں اشکِ ندامت کی لڑی ہوگی
کسی ماتھے سے عرقِ انفعالی بہہ رہا ہوگا
کوئی سرمہ بناتا ہوگا خاکِ راہِ طیبہ کو
کسی کو جذبِ الفت ان کی جانب کھنیچتا ہوگا
صداقت کا، عدالت کا، سخاوت کا، شجاعت کا
امامت کا، ولایت کا خزانہ بٹ رہا ہوگا
گنہ گاروں، سیہ کاروں، خطاکاروں کا طیبہ میں
شفاعت کی سند لینے کو میلا لگ گیا ہوگا
اگر سرکار طیبہ میں ہمیں بھی یاد فرماتے
ہمیں بھی عفو وبخشش کی ضمانت مل گئی ہوتی
ہمارا خواب گر شرمندۂ تعبیر ہوجاتا
حقیقت میں ہماری زندگی بھی زندگی ہوتی
*****
0 Comments