About Me

header ads

ایک زمین ،کئی شاعر {2}

ایک زمین کئی شاعر {2}
------------[مرزا غالب]-------------
غنچۂ ناشگفتہ کو دُور سے مت دکھا، کہ یُوں
بوسے کو پُوچھتا ہُوں مَیں، منہ سے مجھے بتا کہ یُوں

بزم میں اس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے 
اس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مدعا کہ یوں

میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی 
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں؟

مجھ سے کہا جو یار نے جاتے ہیں ہوش کس طرح 
دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں 
∞∞∞

------------[بیان میرٹھی]-----------
صبح قیامت آئے گی کوئی نہ کہہ سکا کہ یوں 
آئے وہ در سے ناگہاں کھولے ہوئے قبا کہ یوں

دیدۂ اہلِ عشق ہے نور نگاہ سے تہی 
آئے وہ فرشِ ناز پر چھوڑ کے کفش پا کہ یوں

شعلۂ رشک غیر سے جل کے اُٹھا نہ جائے تھا 
دُودِ چراغ بزم نے اُٹھ کے بتا دیا کہ یُوں

میں نے کہا نسیم سے چٹکے ہے غنچہ کس طرح 
کنج دہان تنگ سے بوسہ نے دی صدا کہ یوں 
∞∞∞
-----------[رضا بریلوی]-----------
پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیٰ کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں

قصرِ دنیٰ کے راز میں عقلیں تو گم ہیں جیسی ہیں
روحِ قدس سے پوچھئے تم نے بھی کچھ سنا کہ یوں

ہائے رے ذوقِ بے خودی، دل جو سنبھلنے سا لگا
چھک کے مہک میں پھول کی گرنے لگی صبا کہ یوں

دل کو دے نور و داغِ عشق، پھر میں فدا دونیم کر
مانا ہے سن کے شقِ ماہ، آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں
∞∞∞
----------[مرتضی برلاس]-----------
وہ جو رُمُوزِ عِشق ہیں کون سمجھ سکا کہ یُوں
ناخُنِ عقل سے کبھی عُقدہ نہیں کُھلا کہ یُوں

مَیں نے کہا کے بِن تِرے کیسے کٹے گی زِندگی
جلتے ہُوۓ چراغ کو اُس نے بُجھا دیا کے یُوں

اپنی خطا ہے بس یہی ہم نے منافقت نہ کی
جو بھی ہمارے دل میں تھا کہہ دیا برملا کہ یُوں

پُرسشِ حالِ دل پہ جب ہم نہ جواب دے سکے
چہرہ زبان بن گیا سب نے سمجھ لِیا کہ یُوں
∞∞∞
-----------[ایس اے مہدی]----------
کیسے کروں میں ضبطِ راز تو ہی مجھے بتا کہ یوں 
اے دل زار شرح راز مجھ سے بھی تو چھپا کہ یوں

ایک شکستِ ظاہری فتح بنے تو کس طرح 
آئینہ دار بن گیا قصۂ کربلا کہ یوں

پوچھا خطاب یار سے کس طرح کیجیے شام وصل 
چپکے سے عندلیب نے پھول سے کچھ کہا کہ یوں

لطفِ جفائے دوست کا کیسے ادا ہو شکریہ 
لذتِ سوزشِ جگر دینے لگی دعا کہ یوں 
∞∞∞
------------[شاہ نصیر]-----------
اٹھتی گھٹا ہے کس طرح؟ بولے وہ زلف اٹھا کہ یوں
برق چمکتی کیوں کہ ہے؟ ہنس کے یہ پھر کہا کہ یوں

جیسے کہا کہ، عاشقاں رہتے ہیں کیوں کہ چاک جیب؟
اس کو گلِ چمن دکھا، کہہ کے چلی صبا کہ یوں

پوچھے ہے وہ کہ کس طرح شیشہ و جام کا ہے ساتھ؟
کہہ دے ملا کے چشم سے چشم کو ساقیا کہ یوں

ہو گئے بر سرِ خلش لے کے سناں جو خارِ دشت
کرنے کلام تب لگا، قیسِ برہنہ پا کہ یوں

Post a Comment

0 Comments