مرے عزیز، مرے دوست، میرے ہم سایہ
(اسید الحق عاصم بدایونی)
مرے عزیز، مرے دوست، میرے ہم سایہ
ہمارے بیچ جدائی کو اک صدی گزری
نہ تم کو مجھ پہ بھروسہ، نہ مجھ کو تم پہ یقیں
اسی نفاق وعداوت میں زندگی گزری
وہ جس کا نقشِ کف پا ہمارے سینے میں
اسی کی یاد سے آباد تیرا سینہ ہے
وہ جس کے فیض سے ہم نے بلندیاں پائیں
اسی کا نامِ مبارک ترا وظیفہ ہے
ہماری کشت پہ برسا ہے جو سحابِ کرم
اسی کے فیض کی بارش تمھارے آنگن میں
وہ جس کی بو سے معطر مشامِ جاں ہے مرا
اسی گلاب کی رنگت تمھارے گلشن میں
وہ بادہ خانہ جہاں ہم نے مے گساری کی
شراب تم بھی اسی مے کدے کی پیتے ہو
ہے جس نگاہ کی مستی ہماری آنکھوں میں
اسی نگاہ سے مخمور تم بھی رہتے ہو
جو عندلیب مرے باغ میں چہکتا ہے
اسی کی نغمہ سرائی ترے گلستاں میں
وہ شمع جس سے منور ہے طاقِ دل میری
اسی کی ضو سے اجالا ترے شبستاں میں
وہ بجلیاں جو مرے آشیاں کو تکتی ہیں
وہی حریف تمھارے نگار خانے کی
تمھارا گلشنِ صد رنگ جس کی زد پر ہے
وہی خزاں ہے عدو میرے آشیانے کی
غرض کہ فرق نہیں کوئی ہم میں بنیادی
نہ فکر میں، نہ عقیدے، نہ دین ومذہب میں
نہ اختلاف روایات کا، نہ مسلک کا
نہ کوئی فرق ہمارے تمھارے مشرب میں
اگر یہ سچ ہے تو اے محترم حریف مرے
کوئی جواز نہیں ہم میں دشمنی کے لیے
’’اگر تمھاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے‘‘ (۱)
(۱) آخری شعر احمد فراز کا ہے۔
*****
0 Comments