اگر پرتو فگن نورِ شہِ ابرار ہوجاتا
(اکرام احمد لطف بدایونی)
اگر پرتو فگن نورِ شہِ ابرار ہوجاتا
جمالِ حق کا آئینہ در ودیوار ہوجاتا
جو مثل بوئے گیسو پھیلتا رنگِ شبِ گیسو
گنہ گاروں کو ابرِ رحمتِ غفار ہوجاتا
چبھے پاوں میں خارِ طیبہ کیا قیامت ہے
یہ کانٹا دل میں رہتا یا جگر کے پار ہوجاتا
بجائے اشک اگر شرمِ معاصی سے لہو روتے
ہمارا دامنِ تر دامنِ گل زار ہوجاتا
نہ رہتی اس کے دل میں خاک وقعت تاج شاہی کی
جو قسمت سے تمھارا غاشیہ بردار ہوجاتا
نصیبوں سے اگر وہ خواب میں جلوہ فزا ہوتے
مچل کر ان کے قدموں پر فدا سو بار ہوجاتا
وہ اعجازِ تکلم تھا کہ منھ سے پھول جھڑتے تھے
اگر کافر بھی سن لیتا تو وہ دیندار ہوجاتا
سرِ اقدس تو کیا پائے مبارک کا یہ رتبہ ہے
جو ان قدموں پہ سر رکھتا وہی سردار ہوجاتا
یہ سچ ہے دوست کا محبوب بھی محبوب ہوتا ہے
وہ پیارا حق کا ہوتا جس پہ ان کا پیار ہوجاتا
وہ جس کی خاک پا غازہ ہے روئے عرشِ اعظم کا
مرے دل میں بھی یارب جلوہ گر یک بار ہوجاتا
کبھی تو لطف کو وہ چاند سی صورت دکھا دیتے
کبھی اس کا بھی مطلب اے شہِ ابرار ہوجاتا
*****
0 Comments