لب خاموش جو سر چشمۂ تقریر بھی ہے
(شیخ ابوسعید محمدی صفوی)
لب خاموش جو سر چشمۂ تقریر بھی ہے
نکتۂ حسن بھی ہے عشق کی تفسیر بھی ہے
خواب دیکھا تھا ازل میںجو وہی ہستی میں
عین تعبیر بھی شرمندۂ تعبیر بھی ہے
بے خودی تو ہی بتاکس کی طرف میں سجدہ کروں
جلوۂ حق بھی ہے روئے بت بے پیر بھی ہے
صاحب حال ہیں جس بزم گہِ ناز میں گم
محو حیرت وہیں اک بندۂ تقصیر بھی ہے
جوش وحشت میں تو کر جائوں نہ جانے کیا کیا
دل دیوانہ مگر بستۂ زنجیر بھی ہے
جس کو سمجھے تھے ہم اس کون و مکاں سے باہر
صورت نکہت و گل وہ تو بغل گیر بھی ہے
اک نہ اک روز تو دیوانہ پھرے گا پیارے
میری باتوں میں اثرہی نہیں تاثیر بھی ہے
سم قاتل ہے جو تنہائی میں صہبائے حیات
صحبت پیر مغاں میں وہی اکسیر بھی ہے
بے خبرجس کی حقیقت سے تو غافل ہے وہی
زندگی موت کے سایہ میں پنہ گیر بھی ہے
کیا کہوں طرفہ تماشائے محبت کہ سعیدؔ
میں جواں جس کو سمجھتا ہوں وہی پیر بھی ہے
*****
0 Comments