ظلمتِ شب میں اچانک دلِ تیرہ چمکا
(اسید الحق محمد عاصم قادری بدایونی)
ظلمتِ شب میں اچانک دلِ تیرہ چمکا
گویا وادیِ طویٰ میں کوئی شعلہ چمکا
یا شبِ تار میں جیسے یدِ بیضا چمکا
یعنی سوئی ہوئی قسمت کا ستارا چمکا
آئی آواز کہ تو اتنا پریشان ہے کیوں
اتنا افسردہ ورنجیدہ وحیران ہے کیوں
ایک ہستی ہے اگر اس سے تو فریاد کرے
اس سے گر شکوۂ بے رحمیِ صیاد کرے
وہ ابھی تجھ کو غمِ دہر سے آزاد کرے
دلِ ناشاد کو ترے وہ ابھی شاد کرے
کیا بڑی بات ہے اس کو غمِ ہستی کا علاج
وہ تو کردیتا ہے ڈوبی ہوئی کشتی کا علاج
ہاں وہی غوث کہ ہر غوث ہے منگتا جس کا
پرتوِ نورِ ازل ہے رخِ زیبا جس کا
اولیا چومتے ہیں نقشِ کفِ پا جس کا
’’شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا جس کا‘‘
جس کے قدموں کا نشاں گردنِ افراد پہ ہے
دوشِ اقطاب پہ، ابدال پہ، اوتاد ہے
یعنی وہ غوثِ جہاں حضرت عبدالقادر
بے نشانوں کے نشاں حضرت عبدالقادر
قطبِ اقطابِ زماں حضرت عبدالقادر
قبلۂ وکعبۂ جاں حضرت عبدالقادر
چل انھیں کے درِ دولت پہ لیے چلتے ہیں
آ تجھے بابِ اجابت پہ لیے چلتے ہیں
یہ وہی در ہے جسے قبلۂ حاجات کہیں
جس کے ہر جلوے کو ہم خارقِ عادات کہیں
تو بھی گر چاہتا ہے غم کا مداوا یوں کر
ایک جملے میں علاجِ غمِ فردا یوں کر
دلِ بیمار کو اِک آن میں اچھا یوں کر
آ درِ غوث پہ اور عرضِ تمنا یوں کر
غوثِ اعظم بمنِ بے سروساماں مددے
قبلۂ دیں مددے، کعبۂ ایماں مددے
لطف فرما کہ ہے طوفانِ بلا میں کشتی
آگئی حوصلۂ ذوقِ عمل میں پستی
آج ویران ہے پھر سے مرے دل کی بستی
ما گدائیم وتو سلطانِ دوعالم ہستی
از تو داریم طمع یا شہِ جیلاں مددے
غوثِ اعظم بمنِ بے سروساماں مددے
0 Comments