وہ تصور جو ابھی گوشۂ ادراک میں ہے
(سید ضیا علوی)
وہ تصور جو ابھی گوشۂ ادراک میں ہے
اس کا ہی عکس مرے دیدہء نمناک میں ہے
چوٹ کھانے کے لیے خود ہی مچلتا ہے دل
جانے یہ کیسی کشش اس بتِ سفاک میں ہے
گفتگو کس سے کیا کرتا ہوں تنہا تنہا
کوئی پوشیدہ یقیناً مری اس خاک میں ہے
قیمتی تخت کے صندوق میں رکھے ہو جسے
وہ خزانہ مرے دل کے خس و خاشاک میں ہے
فلسفہ ہے نہ حکایت ہے، حقیقت ہے یہی
حسن کا راز فقط عشق کی پوشاک میں ہے
کیسے رسوائی کے نرغے میں محبت آئے
ایک عالم کی نظر روز اسی تاک میں ہے
جس کے فیضان سے دیوانے ہوا کرتے ہیں
یہ "ضیاء" اب تو اسی بارگہِ پاک میں ہے
0 Comments