About Me

header ads

جب گل کی قباؤں سے گلشن میں صبا الجھی



جب گل کی قباؤں سے گلشن میں صبا الجھی 

(سید ضیا علوی)


جب گل کی قباؤں سے گلشن میں صبا الجھی 
ہاتھوں کی لکیروں سے رہ رہ کے حنا الجھی

احساسِ دمیدہ کے الفاظ دریدہ ہیں
ہونٹوں پہ تصور کی آ آ کے دعا الجھی

یہ تشنہ لبی دیکھو ساغر کے کھنکتے ہی 
شیشے میں پری اتری میکش سے بلا الجھی

پھر چشمِ تحیر نے سجدے کیے جھک جھک کر 
جب گردشِ دوراں سے دامن کی ہوا الجھی

اس صحرا نوردی کا عالم ہی نرالا ہے
ہر خار مغیلاں سے چھالوں کی وبا الجھی

گھنگھور گھٹاؤں نے چہرے کو چھپایا ہے
اس زلف پریشاں سے تھم تھم کے ہوا الجھی

بنتی ہے بگڑتی ہے پھر خود ہی سنورتی ہے 
تقدیر مسلسل کیوں تم سے ہی ضیاء الجھی

Post a Comment

0 Comments