وہ جنوں تھا جو ترے کوچہ و بازار میں تھا
(سید ضیا علوی)
وہ جنوں تھا جو ترے کوچہ و بازار میں تھا
طورِ سینا کی قسم وجد بھی دیدار میں تھا
نہ تو صحرا میں کہیں نا گلِ گلزار میں تھا
وہ سراپا تو نہاں میرے ہی پندار میں تھا
روے جاناں پہ نظر پڑتے ہی سب ٹوٹ گیا
جو مرا ناز مرے جُبّہ و دستار میں تھا
تجھ کو دیکھا تو یقیں مجھ کو ہوا ہے خود پر
ورنہ تو میرا پتہ پردۂ اسرار میں تھا
ایک ہی جام میں گزرے ہیں زمانے کتنے
ساقیہ کیسا نشہ جرعۂ خُمّار میں تھا
تیرے جیسا کوئی اب دوسرا ملتا ہی نہیں
یہ تجسس میرے جاناں مجھے بیکار میں تھا
جسنِ یوسف تھا کہاں سحرِ زلیخا تھا کہاں
وہ "ضیاء" خود تھا وہاں خود ہی خریدار میں تھا
0 Comments