About Me

header ads

لرزہ ہوا ہے طاری شعرا کے فکروفن میں

لرزہ ہوا ہے طاری شعرا کے فکروفن میں

(سید ضیا علوی)

لرزہ ہوا ہے طاری شعراء کے فکروفن میں
یہ کون آ رہا ہے غزلوں کی انجمن میں

نقش ونگار اتنے دیکھے ہیں اس بدن میں
ایسا سراپا آنا مشکل ہے حسن ظن میں


کیسے نظر لگےگی, مجبور ہے نظر خود 
تارے چمک رہے ہیں اس درجہ پیرہن میں


اب کے بہار میں تو جشنِ بہار ہوگا 
وہ خوش خرام آیا خوشبو لیے چمن میں


ان آتشی لبوں پر بوسے ہیں زندگی کے 
تعبیر خواب گم ہے جاگی ہوئی دلہن میں


گلشن کے گل مسلسل گر گر کے ہنس رہے ہیں
کیسا سحر چھپا ہے گلچیں کے بانکپن میں


اب دھڑکنوں پہ قابو چلتا نہیں کسی پل 
برگشتہ دل ہوا ہے اپنے ہی جان و تن میں


آؤ اسی سے سیکھیں انداز خوش کلامی
شیریں سخن ہیں پنہاں شیریں سے اس دہن میں


تیشہ کدال کیسے وہ نہر کھود لاتے 
جوشِ جنوں کا جزبہ شامل تھا کوہ کن میں 


تنہا نہیں ہے "آتش" اپنی زمیں میں یکتا 
اک شیر ہے "ضیاء" بھی اس شیر نر کے بن میں

Post a Comment

0 Comments