About Me

header ads

مرزا غالب کے دیوان خانے میں

مرزا غالب کے دیواں خانے میں
عشرت رحمانی


جنرل بخت خان کے دہلی آنے کے بعد تنظیم استقلال اور عزیمت کا زمانہ شروع ہوگیا تھا اور بادشاہ سلامت کو بھی اطمینان ہونے لگا تھا- ۲۶ جون سے ۳ جولائی کے درمیان لڑائی کا زور زیادہ بڑھنے لگا تھا لیکن پہلی اور دوسری جولائی کے درمیان روہیل کھنڈ کے لشکروں کی آمد آمد نے مجاہدین کے حق میں فتح کے دروازے کھول دیے تھے- پہاڑی سبزی منڈی باڑہ ہندو اڑہ وغیرہ کے مورچے آزاد فوجوں نے قبضہ کرکے سنبھال لیے تھے- شرفائے شہر جن میں علما شعرا اور ادبا شامل ہیں جب کہیں موقع پاکر مل بیٹھتے ہیں- جنگ کے حالات اور ان پررائے زنی کرتے دکھائی دیتے ہیں- جب سے شہر کی تنظیم شروع ہوئی ہے- دبیر الملک مرزا غالب اور ان کے مخصوص احباب امام بخش صہبائی، مفتی صدرالدین آزردہ، نواب مصطفی خان شیفتہ و مولانا فضل حق خیرآبادی و دیگر حضرات مرزا غالب کے دایوا ن خانہ اور نواب شیفتہ یا مولانا آزردہ کے مکان پر اکثر اس قسم کی بزم آرائیاں کرتے نظر آتے ہیں- ایک دن مرزا غالب کے دیوان خانے میں محفل آراستہ ہے اور سب حضرات گفتگو میں مصروف ہیں- مولانا فضل حق بادشاہ کے امیروں کا ذکر کرتے رہے اور رائے زنی ہوتی رہی- اسی دوران میں مولانا آزردہ نے کہا:
’’مولانا! بادشاہ سلامت بری طرح نرغے میں ہیں، مجھے تو مرزا الٰہی بخش اور منشی رجب علی کی طرف سے شدید اندیشہ ہے-‘‘
مولانا فضل حق: میں نے یہی عرض کیا، دربار کا نقشہ ان دنوں دیکھ رہا ہوں عجیب ہے-دونوں کچھ ایسی حرکتیں کررہے ہیں کہ عقل قاصر ہے اور حضور بادشاہ سلامت اس قدر حلیم الطبع، راست بازاور خلق مجسم ہیں کہ اگر کوئی خیر خواہ دولت کسی مفسد کے بارے میں اشارۃً شبہ ظاہر بھی کرتا ہے تو حضور اس کی طرف سے صفائی دے دیتے ہیں اور خصوصاً ان دونوں کو توبے حد مخلص اور خیر خواہ تصور کرتے ہیں-
مرزا غالب آہ سرد کھینچ کر، صاحبو! اللہ ہی اللہ ہے- اس ہنگامہ کارزار سے ہم تو تنگ آگئے اس چرخ کج رفتار کا برا ہو- ہم نے اس کا کیا بگاڑا تھا- ملک و مال، جاہ و جلال کچھ نہیں رکھتے تھے- ایک گوشہ و توشہ تھا- چند مفلس و بے نوا ایک جگہ فراہم ہوکر ہنس بول لیتے تھے-
سو بھی نہ تو کوئی دم دیکھ سکا اے فلک
اور تو یہاں کچھ نہ تھا ایک مگر دیکھنا
بادشاہت نام کی ہے کام کرنے والے اچھا برا جو چاہے کرتے ہیں- اس مرشد بے ریا کو ہر طرح پریشان اور بدنام کیے جاتے ہیں- دیکھئے اب اس کا حشر کیا ہو- حقیقت یہ ہے کہ اگر دلی مٹ گئی تو انسانیت برباد اور تہذیب تباہ ہوجائے گی-
نواب شیفتہ: بہر حال ہم لوگ سوائے دعائے خیر اور کیا کرسکتے ہیں- زبانی باتوں کے سوا کیا چارہ ہے- سنا ہے جب سے جنرل بخت خاں نے شہر کا انتظام اور جنگ کا نقشہ سنبھالا ہے آزاد فوج کی فتح کی امیدیں بندھنے لگی ہیں-
مولانا فضل حق: نواب صاحب موجودہ حالات بڑی حد تک غازیوں کے حق میں ہیں- خدا مشکل آسان کرے اور ان فرنگیوں سے نجات بخشے- جنرل بخت خاں کی بروقت آمد تو اس کی مصداق ہے کہ 
مردے از غیب بیروں آید و کارے بکند
مولانا آزردہ: ہاں مولا ناغضب کا شیر دل انسان ہے- فربہ اندام، دراز قد، تنو مند اور بلا کا جیالا، کافروں کو ہر ہر مورچہ پر مولی گاجر کی طرح کاٹ کے پھینک دیا ہے اسی بہادر نے-
صہبائی: جی ہاں! کئی روز ہوئے صاحب عالم ملے تھے- سنا رہے تھے کہ ۹جولائی کو جنرل صاحب نے دس ہزار کی جمعیت کے ساتھ انگریزی فوج پر حملہ کیا اور تیس ہزاری میدان ان سے چھین لیا- گھوڑے ہتھیار اور بہت سا سامان میدان جنگ سے ہاتھ آیا-
غالب: میاں صہبائی ایک روز تم نے ہی تو بیان کیا تھا کہ یہ بخت خان شہر میں کس طرح داخل ہوئے-
صہبائی: قبلہ یہ واقعہ مجھے بھی راقم الدولہ کی زبانی معلوم ہوا- اپنا چشم دید حال سناتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے یہ بھی غازیوں کے خلاف اور انگریزوں کے ہوا خواہ ہیں-
غالب: خیر اس بحث کو تو جانے دو- سب کو اپنی اپنی پڑی ہے اس وقت- انجام پر جو نظر ہے- واقعہ دلچسپ تھا-
آزردہ: ذرا سنائیے نا-
صہبائی: جی وہ کہتے تھے جنرل بخت خاں جب دہلی میں داخل ہوا تو ۱۴ ہزار کا کمپو، چند توپیں اورتین رجمنٹیں، سواروں کی ساتھ تھیں اور کئی لاکھ روپھے بھی لے کر آیا- سر پر انگو چھا لپٹا ہوا- جال کرچ گلے میں پڑی ہوئی- پیچھے حال کھلا کہ بریلی والا جنرل وہی تھا- بظاہر تو اس کا لباس گھاس کھدوں کا ساتھا- میں تو سمجھا جیسے اور پوربئے سپاہی ہیں- یہ کبھی کوئی سپاہی ہوگا- بادشاہ نے فرزند کا خطاب عطا کیا-
غالب: بھئی واہ کیا خوب!
فضل حق: جی ہاں ان کا بیان درست ہے- حضور بادشاہ سلامت نے خطاب کے علاوہ ایک بیش قیمت ڈھال اور تلوار بھی عنایت کی اور تمام شہر میں منادی کرائی گئی کہ پلٹنوں کے افسروں کو ہدایتیں سننے کے لیے جرنل کے پاس جانا چاہئے- انہوں نے اپنا فوجی دفتر علیحدہ قائم کیا ہے- اس کے منشی خیرات علی مقرر ہوئے ہیں- ان کے ڈسپلن کی بدولت فوج میں برابر اضافہ ہورہا ہے-
آزردہ: یہ تو فال نیک ہے صاحب- حالات بہتر ہوجائیں گے- اسی لیے شہر کا انتشار اور افراتفری ختم ہورہی ہے اور فوجی نظام بھی سدھر رہا ہے-
فضل حق: لیکن مولانا! جرنل صاحب کا تو حال یہ ہے کہ:
د وگونہ رنج و عذاب است جان مجنوں را
ایک طرف شہر کا انتظام، دوسری طرف فوجی نظام- حاسدین و سازش پسند لوگوں کا قلع قمع کرنا اور پھر سب سے زیادہ مشکل کام شہزادہ مغل کو رضا مند رکھنا-
غالب: یہ کیوں صاحب شہزادے کو کیا تکلیف ہے؟
فضل حق: وہ اپنا اقتدار و اختیار چاہتے ہیں اور ناتجربہ کار ہیں- جرنل صاحب ہر طرف سے بہبودی کے خواہ ہیں- اس لیے شہزادہ سے ان بن رہتی ہے- جرنل صاحب کی شہزادہ جواں بخت سے خوب بنتی ہے- اسی بات پر دونوں بھائیوں کے درمیان بھی کچھ چپقلش رہنے لگی ہے-
غالب: تو یوں کہئے جوتیوں میں دال بٹنے لگی-
فضل حق: جی ہاں! جرنل غریب یکسوئی سے کام نہیں کرسکا ہے- حضور بادشاہ سلامت نے کلی اختیارات دیے ہیں اور اس کی شجاعت و دیانت و فرائض منصبی کی انجام دہی پر حضور کو کامل اعتبار ہے- معلوم ہوتا ہے کہ شہزادہ مغل کو کوئی نہ کوئی مفسد بہکاتا ہے- یہ بھی کوئی سازش ہے ورنہ مرزا مغل بھی شجیع، عقل مند جوان ہیں-
آزردہ: یہ گمان درست معلوم ہوتا ہے مولانا- مرزا مغل ذرا جوشیلے اور کوتاہ اندیش بھی ہیں- 
فضل حق: جی ہاں! برعکس اس کے جواں بخت سلیم الطبع، برد بار اور سنجیدہ نوجوان ہیں- حالانکہ مرزا مغل سے کم عمر ہیں اور ملکہ زینت محل کی ناز بردار ی شہزادہ مغل سے زیادہ ان پر ہے- تاہم فطری طور پر بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں-
غالب: صاحبو! مجھ کو نظر آتا ہے کہ دلی پر ایک نہیں کئی لشکروں کا حملہ ہے- پہلا باغیوں کا، اس میں اہل شہر کا اعتبار تھا- دوسرا خاکیوں کا- اس میں جان و مال و ناموس، مکان و مکیں، زمین و آسمان و آثار ہستی سراسر لٹ گئے- تیسرا کال کا، اس میں ہزاروں آدمی بھوکے مرے-
آزردہ: مرزا صاحب آپ بھی عام شہریوں کی طرح غازیوں کو باغی سمجھتے ہیں-
غالب: مولانا یہ اپنی اپنی فہم ہے- گوکہ میں ذرا سے فرق سے اس لشکر عظیم کو دو گروہوں میں بانٹنے کو تیار ہوں- ایک وہ جو واقعی ملک کے خیر خواہ ہیں اور غازی ہیں اور دوسرے وہ جو ان کی آڑ میں لوٹ مار مچا رہے ہیں- یہ صریحاً باغی ہیں اور چونکہ یہ جنگ خواہ کسی نظریے اور مقصد کے تحت ہو ایک برسر اقتدار طاقت کے خلاف دوسری قوت کی بغاوت ہے- اس لیے اس میں شریک ہونے والے نیک و بد سب باغی ہی کہلائیں گے اور صاحب انگریز بہر حال انگریز ہیں- ان کے انداز حکومت اور طرز جہاں بانی کی دا ددینا پڑتی ہے-
آزردہ: مرزا صاحب خدا خدا کیجئے-پہلی تاویل آپکی بجا- لیکن آخری ارشاد قابل غور ہے-         
غالب: جی ہاں غور و فکر ہی کے لیے عرض کرتا ہوں:
صدائے عام ہے یار ان نکتہ داں کے لیے
فضل حق: مرزا صاحب، آپ نے اس مسئلہ کے جملہ پہلوؤں پر غور نہیں کیا- یہ دینی جنگ ہے-
غالب: مولاناغور بھی کروں تو کیا حاصل؟مفتی صاحب کی تلقین ہے خدا خدا کروں- آپ فرماتے ہیں ’دین دین‘ کا نعرہ لگاؤں- یہ باغیوں کی صدا ہے اس لیے میں کچھ نہیں کہتا- ہاں آپ نے تو جہاد کے فتوے پر دستخط کردیے ہیں، خدا خیر کرے-
مولانا آزردہ کچھ سوچنے لگے- سب حضرات مسکرانے لگے- مرزا صاحب نے اس سنجیدہ بحث میں بھی بذلہ سنجی کا پہلو نکال لیا-
مولانا فضل حق نے کہا: خیر صاحب کچھ بھی ہو ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ الحمد اللہ اب حالات رو بہ صلاح ہیں- اگر عقل و تدبر سے کام لیا- جرنل بخت خاں کے نقشے کے مطابق کام ہوتا رہا اور غداری و خانہ جنگی کی وبا نہ پھیلی تو انشاء اللہ میدان مجاہدین کے ہاتھ میں ہے-
مفتی آزردہ اور صہبائی نے یک زبان ہوکر کہا ’’آمین ثم آمین‘‘
اس کے بعد گفتگو کا پہلو بدل گیا- مولانا فضل حق نے مرزا غالب سے پوچھا؟ مرزا صاحب معاف کیجئے گا، اس بحث کے ہنگامہ میں مرزا یوسف کی مزاج پرسی کرنا بھول ہی گئے-
غالب: بحث کے ہنگامے میں نہیں بلکہ ہنگامے کی بحث میں-
مولانا فضل حق مسکرا دیے اور پھر اپنے سوال کو دہرایا-
مرزا صاحب نے مضمحل انداز میں کہا- صاحب اس بگڑے مزاج کا حال ہی کیا- دماغ ماؤف قوی مضمحل- اس غدر کے ہنگامے میں نہ علاج معقول ہو سکتا ہے- نہ مناسب غذا بہم پہنچتی ہے- ہوش میں آجاتا ہے تو واہی تباہی بکتا ہے- یا رات دن بے ہوش پڑا رہتا ہے- کئی کئی روز اس ہنگامے کے زمانے میں میں اس کی خبر تک کو نہ جاسکا-
مرزا صاحب مجبوب بھائی کے درد سے آبدیدہ ہوگئے- سب خاموش، افسوس و ہمدردی کے کلمات کہنے اور صحت کی دعا کرنے لگے- مرزا یوسف بیگ مرزا غالب کے چھوٹے بھائی ہیں- جو جوانی کے عالم میں مرض جنون میں مبتلا ہوکر ہوش و حواس کھو بیٹھے- سینکڑوں علاج ہوئے مگر افاقہ نہ ہوا- مرزا صاحب کو ان سے عشق ہے اور وہ ان کے حال زار سے سخت رنجیدہ ہیں- مرزا صاحب علیحدہ مکان میں رہتے تھے مگر مرزا غالب ان کے نگراں تھے- اس ہنگامہ کے دوران مرزا صاحب بھائی اور ان کے بال بچوں کی خبر گیری نہ کرسکے- کچھ دیر بعد مولانا فضل حق وہاں سے چلے گئے- ان کے جانے کے بعد مرزا صاحب اور دوسرے احباب حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے رہے- مرزا صاحب نے صہبائی صاحب کی طرف مخاطب ہوکر کہا-
’’میاں صہبائی، یہ فساد ہمارے حق میں تو عذاب بن گیا ہے- خون کی کشیدہورہی ہے- دیسی عرق کی کشید بند ہے- ولایتی شراب نایاب ہے- اگر کہیں سے مل جائے تو غم غلط کرنے کا سامان کریں-‘‘ احباب مسکرانے لگے- مرزا صاحب نے مولانا آزردہ کی طرف دیکھ کر کہا:
’’معاف کیجئے، رنج و غم کی دوا کا ذکر کررہا تھا فتوے سے ڈرتا ہوں- آپ دوستی کا حق نبھاکر معاف بھی کردیں گے مگر آج کل مولویوں کی جماعت جگہ جگہ فتوے دیتی پھر رہی ہے- ان سے بچنا دشوار ہوگا-‘‘
آزردہ: مرزا صاحب، ایمان کی بات یہ ہے کہ مجاہد علما کی اس جمعیت نے کارہائے عظمیٰ انجام دیے ہیں اور میرا معاملہ تو یہ ہے کہ :
گوئم مشکل و گرنہ گوئم مشکل
شیفتہ: انگریز کے دل سے پوچھئے، اس کے عیش و فراغت میں خلل انہیں نے ڈالا ہے اور ان کے مظالم کے خلاف بغاوت کے بانی یہی ہوئے-
صہبائی: نواب صاحب واقعہ یہ ہے کہ انگریزوں کی مسلسل زیادتیوں اور ظلموں نے یہ دن دکھایا ہے اور انگریز بہادر کی کمپنی خود اس کی بانی ہے-
آزردہ: اس میں کوئی شک نہیں- لارڈ ڈلہوزی کی ناانصافیوں اور بدعہدیوں نے ملک گیری کی ہوس میں تمام ریاستوں حتی کہ اودھ کی اتنی بڑی مملکت کو کمپنی کے تحت ملالینے سے یہ ثابت کردیا کہ وہ ہندوستان کی شہنشاہیت کے خواب کی تعبیر تلاش کررہے ہیں-
صہبائی: یہ حقیقت ہے اور اس لیے اس جنگ کو ہنگامی بغاوت نہیں کہا جاسکتا- ملک کے تمام باشندوں نے سیاسی بے چینی کے خلاف آواز بلند کی ہے-
شیفتہ: خدا انجام بخیر کرے- انگریز اس آسانی سے تو بھاگنے والا نہیں-
آزردہ: اندیشہ یہی ہے کہ جیسے کچھ ہندوستانی سپاہی انگریزی فوج میں شامل ہوگئے ہیں- کہیں طمع و لالچ میں انہیں ہمارے ہی بھائی زیادہ سے زیادہ امداد نہ دینا شروع کردیں- بندے نے تو اپنا اقدام بھی حزم و احتیاط سے روا رکھا ہے-
شیفتہ: اگر صرف انگریز کا مقابلہ ہی رہے تو ہندوستانی ہار نہیں سکتے- پھوٹ پڑگئی تو حالات بگڑ جائیں گے-
صہبائی: سنا ہے انگریز جاسوسوں نے عجیب طریقے ہندوستا نیو ں  کو بہکانے، ورغلانے اور پھوٹ پیدا کرانے کے اختیار کیے ہیں- بھیس بدل کر ہندوستانی بن جاتے ہیں- ہماری فوجوں کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور عام رعایا کو انگریزوں کے ساتھ ملانے کے لیے نئی نئی سازشیں کررہے ہیں-
مرزا صاحب جو دیرسے خیالات میں کھوئے ہوئے خاموش بیٹھے تھے یہ باتیں سن کر چونک پڑے اور بولے- مولانا ذرا احتیاط کیجئے، دیوار ہم گوش دارد- انگریزوں کی حکمت و تدبیر سے بعید نہیں کہ صہبائی اور شیفتہ کے لباس میں بھی کوئی انگریز افسر ہم سے ہم کلام ہو اور کل تک ہم اور آپ بغاوت کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیے جائیں-
سب خاموش ہوگئے اور تھوڑی دیر بعد یہ حضرات رخصت ہوئے -

Post a Comment

0 Comments