About Me

header ads

مٹی کی خوشبو کا شاعر، بیکل اتساہی

مٹی کی خوشبو کا شاعر، بیکل اتساہی
ڈاکٹر سعید عارفی


اردو غزل کا خمیر عربی اور عجمی مٹی کی آمیزش سے تیار کیا گیا ہے ۔ اسی لیے اس کی روایات اور جڑیں انتہائی گہرائی تک عربی و فارسی زبان و ادب تک پہنچی ہوئی ہیں ۔ اردو کے زیادہ تر بزرگ شعراء نے غزل کی عمارت تعمیر کرتے ہوئے جس اینٹ گارے کا استعمال کیا ہے اس پر انہیں زبانوں کے گہرے اثرات ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ غزل اردو زبان کی سطح پر آج تک ان زبانوں کے حصار کو توڑپانے میں ناکام رہی ہے ۔اردو غزل کی فضا، ماحول، گل بوٹے اور زندگی وغیرہ انہیں زبانوں سے مستعار لی ہیں ۔ اردو کے قدیم شعراء کے یہاں تو مقامی رنگ و آہنگ خال خال دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس سلسلے میں ہم صرف چند نام لے سکتے ہیں جنہوں نے غزل کی عمارت کو مقامی اور خصوصاً ہندوستانی آب و ہوا اور رنگ و روغن سے سجانے سنوارنے کی کوشش کی ہے مگر بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کے بعد ابھرنے والے شعراء کی نسل میں ایک بڑی تعداد نے غزل کو ہندوستانی زندگی ، تہذیب، ماحول، خوشبو، مٹی اور مسائل سے قریب تر کرنے کا کارنامہ انجام دیا ، اگر میں یہاں یہ کہوں کہ ان شعراء نے ان چیزوں کے اظہار کا وسیلہ بنایا تو غلط نہ ہوگا بیکل اتساہی اس سلسلے کی شعراء کی ایک اہم کڑی ہیں ۔
 غزل کو اپنی سرزمین سے جوڑنے کا یہی جذبہ بیکلؔ کو نظیرؔ اور کبیر ؔکی روایات کی جانب متوجہ کرتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں   ؎
سنا ہے مومنؔ و غالب ؔنہ میرؔ جیسا تھا
 ہمارے گاؤں کا شاعر نظیر جیسا تھا
چھڑے گی دیر و حرم میں یہ بحث میرے بعد
کہیں گے لوگ کہ بیکل کبیرؔ جیسا تھا
 بیکلؔ نظیرؔ اور کبیرؔ کی روایات کے سچے امین بن پائے کہ نہیں تو الگ بات ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا ، بیکلؔ ابھی سفر میں ہیں ۔ نظیرؔ اور کبیرؔ کی علمی بلندی سے قطع نظران کی سماجی ، اخلاقی ، تہذیبی اور معاشرتی بصیرت کا ادراک ایک دشوار امرہے یہ وہ عہد ساز شخصیتیں ہیں جن کے نقوش پا کی روشنی نووارد ان شوق کو منزل تک پہنچنے میں معاونت کرتی ہے۔ اپنی غزلوں میں بیکلؔ کا یہی شعر انحراف صرف ان کے لب و لہجے کو ہی انفرادیت عطا نہیں کرتا بلکہ ان کی آواز کو سب سے الگ کر کے اسے ایک نئی شناخت بھی دیتا ہے۔
جدید لہجہ یہ انداز کس لیے بیکلؔ
تجھے تو حسن روایت سے انحراف نہ تھا
ہم ہیں جدت کے پجاری تم روایت کے مرید
بس اسی ضد میں وقار فکر و فن جلتا رہا
یو ں تو بیکل کے شعری وجود کی تراش خراش اور ان کے ذوق کی تربیت کلاسیکی اور روایتی اندازوشاعرانہ ماحول میں ہوئی۔دبستان جگر سے وابستگی کے باوجود انہوں نے زندگی اور شاعری کے لیے ایک الگ راہ نکالی جو ان کی اپنی ہے اور اس راہ کے وہ تنہا مسافر ہیں ، ان کا مد مقابل دوسرا کوئی نہیں ۔
 بیکلؔ اتساہی نے ایک الگ راہ پر چلنے کے باوجود اردو شاعری کی بنیادی جمالیات سے کبھی اپنے کو الگ نہیں کیا ، اس کا عکس جگہ جگہ ہمیں ان کی غزلوں میں دیکھنے کو ملتا ہے یہی شعری جمالیات غزل کا تابناک اور لازوال حسن ہیں اور یہی غزل کو دوسری تمام زبانوں کو شاعری سے ممتاز کرتی ہیں ۔ اس کے بغیر غزل ایک بے روح جسم کی طرح ہو کر رہ جاتی ہے اس کیفیت نے بھی بیکلؔ کی غزلوں میں ایک حسن، جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسلوب میں ندرت اور لہجے میں کھنک پیدا کردی ہے  ؎
وہ گفتگو کہ ہر ایک لفظ میں بلا کی تپش
بدن کا لمس مگر زمہریرجیسا تھا
چمن کو اوروں نے لکھا ہے میکدہ بردوش
میں پھول پھول کو آتش بجام لکھتا ہوں
چمن کو اوروں نے لکھا ہے میکدہ بردوش
میں پھول پھول کو آتش بجام لکھتا ہوں
تشنگی کس کو کہا جائے یہ پوچھا تھا
بس اسی بات پر روٹھے ہیں سمندر والے
کس قدر ایک بوند پانی تشنگی میں ہے عظیم
تشنہ لب کو اس کا اندازہ سمندر سے ہوا
وہ تیرے قرب کا احساس خوشبوؤں میں تھا
کہ میں ہی رات گلابوں کے پہلوؤں میں تھا
میں نے جینے کی دعا مانگی تھی پہلے بیکلؔ
لیکن اب جینے کی مجھ کو نہ دعا دے کوئی
زبان گل سے چٹانیں تراشنے والے 
نگارو نقش میں آسائش نمو رکھ دے
روشنی کا  ایسا کچھ یاروں نے بٹوارہ کیا
ہم سمٹ کر اپنی ہی پرچھائیوں میں رہ گئے
آج نہ جانے کیا جادو ہے یاروں کی رعنائی میں
 محفل محفل نکھری ہے میری شب تنہائی میں
تیرے  ہی غم نے کسی سمت دیکھنے نہ دیا
کہ ہجوم تمنا بھی تنگ دست لگے
شمع صد جلوہ نہیں رونق محفل تنہا
کتنی شمعوں کو جلائے ہے میرا دل تنہا
سب کے ہونٹوں پہ تبسم تھا مرے قتل کے بعد
جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل تنہا
 بیکلؔ اتساہی اپنی غزلوں میں زندگی کی حقیقتوں اور سچائیوں کا اظہار بڑے ہی فطری اور بے باک انداز میں کرتے ہیں جس میں جذبے کی حرارت اور احساس کی شدت ہوتی ہے۔ ان کے اس رویے سے ہمیں ان کی تخلیقی قوت اور عمل کا بھی پتہ چلتا ہے۔ کسی بھی شاعر کے لیے یہ بات اس کے تخلیقی سفر کی ہر منزل پر بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ معاشرتی ، سماجی، اخلاقی اور معاشی تضادات کو بھی عریاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج یہ مختلف انداز اور قسم کے تضادات ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے زندگی میں خلوص اور ہمدردی کے جذبے ختم ہوتے جارہے ہیں اور ہم فطری زندگی گزارنے کے بجائے بناؤٹی اور مصنوعی زندگی اختیار کرتے رہے ہیں اس خطرے کو انہوں نے محسوس کیا ہے اور اس کا اظہار بھی کیا ہے  ؎
آج بلا عنوان سنا ہے، افسانوں کا چرچا ہے
گردش دوراں خیر ہو تیری، دیوانوں کا چرچا

پہلے تو چپ چاپ تماشہ دیکھ رہے تھے ساحل پر
ڈوبنے والا ڈوب گیا، تب طوفانوں کا چرچا ہے

کب تک یوں ہی بھیس بدل کر حرم کا روپ چھپائے گا تو
پانی پر کب ٹک پائی ہے بالوں کی تصویر رے جوگی

 دھوپ دھوپ چہروں کی حکومت، چھاؤں چھاؤں زلفوں کی سیاست
جیون کے اس دورہے پر رانجھا بن گئی ہیر رے جوگی

آج جو لمحہ ملے پیار کی باتیں کرلیں 
وقت بے رحم ہے کل تیرا نہ میرا ہوگا

کل جو ہر حال میں رفیق رہے
آج وہ بھی رقیب ہیں جیسے

موج رواں ہے آج کے انسان کا مزاج
دائیں بکھیر دو اسے بائیں بکھیر دو

یوں تو ہر بات میں ہیں آپ فرشتوں کی طرح
آئینہ دیکھے ہے انداز بشر میں رہیے

زندگی کا دوسرا رخ موت ہے مانا مگر
حادثے ہوتے گئے میں جاوداں بنتا گیا

جیب و دامن پر اصول قتل و خوں تحریر ہے
منصفوں کو قاتلوں کا پیرہن اچھا لگا

بھاگتی سڑکیں نگلنا چاہتی تھیں وقت کو
وقت اک بچہ تھا لیکن کس قدر چالاک تھا

پہلے مخمل سے کم نہیں تھی مگر
دوستی اب تو مارکین لگی

احساس یقیں جسکے ہر لفظ پہ ہوتا تھا
دھو کے کا گماں نکلا اس سَنْت کے بانی میں

یہ سودے بازی ہی سمندر کا مقصد اگر ٹھہرا
شریک زندگی مریم نہ کوئی رادھیکا ہوگی
بیچ سڑک اک لاش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا
بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے

 جس کے ساز سنگار کے کیا کیا سپنے دیکھے تھے
 اس بیٹی کی بانہہ گلے کی پھانسی لگتی ہے

میں سب کچھ بیچ کر ایک مانگ بھروادوں مگر پہلے
کفن میرا، مری بیٹی کا آنچل لکھ دیا جائے

اس طرح کے بے شمار اشعار بیکلؔ کی غزلوں میں بکھرے پڑے ہیں جن میں زندگی، سماج، اخلاق معاشرہ، تہذیب اور معاشی تضادات کی کیفیات پائی جاتی ہیں ۔
غزل میںزیادہ تر ہمیں شہری معاشرے، تہذیب اور زندگی کی تصویریں ہی نظر آتی ہیں مگر بیکلؔ اتساہی کی غزلوں میں جس معاشرے، زندگی، تہذیب اور شعور و احساس کی عکاسی کی گئی ہے وہ ہندوستانی گاؤں، دیہات سے متعلق ہیں ۔یہ رویہ بھی ان کی شاعری کو ایک نیاپن عطا کرتا ہے۔ یو ں تو بے شمار شاعروں نے معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی اپنی شاعری کا محور بنایا ہے مگر میں یہاں یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ زندگی کے ان سارے پہلوؤں پر شہری چمک دمک حاوی ہے۔ان کا انداز مصنوعی، مزاج عاجزانہ اور فضا شہری ہنگاموں کی کیفیات سمیٹے ہوئے:
ہمارے گاؤں کے اہل نظر کی مت پوچھو
تمہارے شہر میں اب خوش جمال کتنے ہیں

تمہارے شہر کی سڑکوں کی ناہمواریاں سن کر
ہمارے گاؤں کے رستے برابر ہوگئے ہوں گے
وہ جن کے تن سے موسم چیتھڑے بھی لے گیا ہوگا
وہی فٹ پاتھ پر خود اپنا بستر ہوگئے ہوں گے

اونچی کوٹھی کی لڑکی نے کپڑوں میں پیوند لگائے
شہر کی ہر دیوار پہ تاجر لوگ اسے فیشن لکھ دیں

اونچے اونچے محلوں سے یہ پوچھے کون
پھوس کا چھپر کچا آنگن کس کا ہے

اونچی اونچی بلڈنگیں بنیں
لوگ بے مکان ہوگئے
گاؤں میں غزل کو دیکھ کر
گیت سب کسان ہوگئے

اب چندن کی میٹھی خوشبو اس کی سانسیں ہیں
اب اس کو پرکھوں کی بولی کڑوی لگتی ہے
پل دو پل ہی ساون کی شہزادی اتری تھی
میرے کھیت کی مٹی کتنی سوندھی لگتی ہے

مری بستی کو شاید خوبصورت شہر بننا ہے میرے مالک 
مری بستی کو جنگل لکھ دیا جائے

 آج غزل زبان، بیان، فکر، احساس اور اظہار کی سطح پر قدیم غزل سے بالکل جداگانہ انداز اختیار کرتی جارہی ہے اس سلسلے میں بیکلؔ کے یہاں بھی ایک انفرادی رویہ ہے ۔ ان کی غزلوں میں ایک عجیب تلاش اور جستجو کی کیفیت ہے۔ درحقیقت اس جستجو اور تلاش میں زندگی کی حقیقتوں کے عناصر شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں عصری زندگی کے ساتھ دور تک چلنے کا عمل پایا جاتا ہے ساتھ ہی ساتھ ان میں فکری اور مقصدی پہلو کے جلوے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ اپنی غزلوں میں کسی طرح کی مسیحائی کا دعویٰ نہیں کرتے اور نہ ہی انسانی دکھ درد کا مداوا وہ کسی معالج کی طرح کرتے نظر آتے ہیں بلکہ بیکلؔ اپنے اشعار سے ہمارے وجود میں دکھوں کو سہنے اور انہیں برداشت کرنے کا حوصلہ، اعتماد، ہمت اور جرأت کے جذبے بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں کہ وہ اپنے اس عمل میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ تو صرف اس بات پر یقین رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ انہیں جو کچھ کرنا چاہیے تھا اسے وہ کررہے ہیں ۔
دوست ترے مصروف ہیں بیکل لفظ و ترنم کے چھونے میں
عجیب وہنر سب تیرے فن کا یار تیرے دشمن لکھ دیں
بیکلؔ یہ بات صرف سر سری طور پر ہی نہیں کہتے بلکہ اپنے عہد کی زندگی کو بھی غور سے دیکھتے ہیں اور اس پر کچھ اس انداز سے تبصرہ کرتے ہیں ۔
سازش، لوٹ، دغا، بے چینی سب اپنے درپن لکھ دیں گے
آج یہ ہیں تصویریں ہماری کل سارا جیون لکھ دیں گے
 آس کی آگ جلتی رہی اک صدی پل میں ڈھلتی رہی
زیست کروٹ بدلتی رہی درد کے پہلوؤں کی طرح
بیکلؔ جی گاؤں کو لوٹ چلو اس شہر کے لوگ ہٹیلے ہیں
ہے جوالا مکھی ہر ایک بدن پر من کے سبھی برفیلے ہیں
سڑکوں پہ اجالوں کے پہرے چوراہے کھڑے گونگے بہرے
گلیوں میں اندھیروں کے چہرے سنکوچ میں پیلے پیلے ہیں
بڑی کرپا ہے گنگاجی مجھ پر، میرے حصے میں
نمک،ماچس،چنا ایک مٹھی چاول لکھ دیا جائے
حقیقت تو یہ ہے کہ بیکلؔ کی شعری کائنات میں عام آدمی کی زندگی کی بے چینی ، نا آسودگی اور کلفتوں کی تصویریں ہیں جس میں ہوا، روشنی، دھوپ اور فضا کے مسلسل ستم کے ساتھ ساتھ نمک، ماچس، دال، چاول اور زندگی کی اشیائے ضروری کی محرومیاں بھی ہیں ۔ ماحول کی آلودگی دم گھونٹ رہی ہے، یہ سب کچھ سہنے کے باوجود عام آدمی زندگی کی جنگ مسلسل لڑرہا ہے اور اس جنگ سے  کسی بھی لمحہ شکست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ اس کی بقا کا سوال ہے یہ جنگ غالباً ازل سے ابد تک عام آدمی کے  نام لکھی گئی ہے کیونکہ کسی نہ کسی شکل میں اس کا سلسلہ ہمیں ہر عہد میں دیکھنے کو مل جاتا ہے۔
تن کی خاطر تانے بانے سلجھانے میں الجھے ہیں
من کے لیے پھر کوئی بتائے کتنے جتن کرپائیں گے
نہیں ہے انت دھن کا جسے دھن والے سمجھتے ہیں
خبر کیا ان کو جب مفلس کے ہونٹوں پر دعا ہوگی
کس دوست سے میں بیکلؔ دکھ درد کہوں اپنا
دشمن بھی نہیں ملتے اب دور گرانی میں
تیشۂ غربت سے نہرمال و زر تیار تھی
سلطنت کو یہ کمال کوہ کن اچھا لگا
اب اندھیروں کو میرے گھر میں سکوں ملتا ہے
میرے آنگن میں نہ سورج کو اتارا جائے
ہم تو دھرتی کے اندھیروں میں بسر کرلیں گے
جائیے آپ کہیں شمس و قمر میں رہیے
نظر کی فتح کبھی قلب کی شکست لگے
میری حیات پرائے کا بندوبست لگے
ترے ہی غم کسی سمت دیکھنے نہ دیا
کہ اب ہجوم تمنا بھی تنگ دست لگے
آج پھر گزریں گے قاتل کی گلی سے ہم لوگ
آج پھر بند مکانوں کے دریچے ہوں گے
عیش و طرب میں لاکھ جھمیلے رنج و الم میں تنہا ہیں
ہم کو اطمینان بہت ہے لوگ کہیں بربادی ہے
ہم نے سمیٹ رکھا ہے ماحول کا سکوت
ماحول میں ہماری صدائیں بکھیردو
بیکل ؔاتساہی نے غزلوں میں اپنی بات کہنے کے لیے سیدھی سادی علامتوں اور دیہاتی زندگی کے روز وعلائم کو واضح کرنے والی ا شارتی زبان کا استعمال کیا ہے۔ ان کے اشارے مبہم اور غیر واضح نہ ہوکر بہت صاف اور واضح ہیں ۔ اسی لیے ان کی ترسیل  قاری تک آسانی سے ہوجاتی ہے۔ اظہار اور اسلوب کی یہ ندرت بھی انہیں اپنے ہم عصر غزل گو شعرا سے الگ کرتی ہے۔
بیکلؔ کی غزلوں کی ایک انتہائی اہم خوبی کی جانب میں یہاں اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ انہوں نے زبان کی سطح پر اپنی غزلوں کے لیے اس زبان کا انتخاب کیا ہے جسے بولنے اور سمجھنے والے عوام اور خواص دونوں ہی طبقے کے لوگ ہیں یہی وہ منزل ہے جہاں وہ اپنی شاعری میں نظیرؔ وکبیرؔ کی روایات سے قریب تر ہوجاتے ہیں اور زندگی کی تکالیف،ڈر، خوف، الجھنوں اور پیچیدگیوں کے اظہار کے لیے کبھی بھی کسی گہری، دوراز کا ر اور ناقابل فہم علامتی زبان کے استعمال سے گریز کرتے ہیں ۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے ان کی غزلوں میں زندگی کی سچائیوں کی مکمل تصویریں ابھر آئیں ہیں ۔ زبان کو اپنے اعتبار سے برتنے اور اسے وقت و ضرورت کے مطابق وسیلۂ اظہار بنانے کے اس عمل نے ان کی شخصیت اور شاعری کو ایک الگ شناخت بخشی ہے۔
مری دنیا مرے ہی گاؤں کے مکھیا نے لوٹی
کہاں جاؤں ٹھکانہ میرا چنبل لکھ دیا جائے
گھونگھرو کی صدائیں جھانکتی ہیں اس پار اداس دریچوں سے
اس پار سسکتے جیون کے پھر بھی سنگیت رسیلے ہیں
 میں باسی اس گاؤں کا جس کی سانجھ جلے بھنسار جلے
یوں برسے گجراے بادل تن سلگے گھر بار جلے
غریبی میں جواں بیٹی کی شادی کیسے ہوپائے
جہیزی روگ میں انسانیت جب مبتلا ہوگی
کھیت جلتے ہوئے جہاں دیکھے
وہ مرے گاؤں کی زمین لگی
جی بھر کے دیکھا ہی نہیں ہے مجبوری کا روپ
زیست کے رخ سے ضبط کا آنچل اور تنک سرکاؤ
منصفوں کا یہ زمانہ ہے کہاں جائیے گا
اب تو بیکلؔ کسی قاتل کے اثر میں رہیے
شاید چھپی ہو اس میں امیروں کی آبرو
یوں ہی نہ ہر غریب کی چادر نچوڑیے
یوں ہی کیا کل بھی مرے گھر میں اندھیرا ہوگا
رات کے بعد سناہے کہ سویرا ہوگا
لوگ جس گاؤں منصف کو بسا آئے ہیں
کل اسی گاؤں میں قاتل کا بسیرا ہوگا
صدیوں سے بیدار رہے ہیں اس بستی کے رہنے والے
 جس بستی کے چوراہے پر لٹتے رہے فقیر رے جوگی
تیرگی کی گھر کے ہر اک طارق پر پوجا ہوئی
روشنی کے دیوتا انگنائیوں میں رہ گئے
وہ میرے قتل کا ملزم ہیل وگ کہتے ہیں
وہ چھٹ سکے تو مجھے بھی گواہ لکھ لیجئے
 اسی دن چھاؤں ٹھنڈی بوڑھے برگدسے جدا ہوگی
کہ جس دن اپنے میکے سے کوئی لڑکی بِدا ہوگی
 بیکلؔ کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے ہم ان کے اشعار کے وسیلے سے ان کے مکمل وجود سے متعارف ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی غزلیں شاعری رشتوں کے تقدس، زندگی کے مسائل مختلف قسم کے سماجی تضادات اور الجھنوں کے ساتھ ساتھ فرد، ذات اور وجود کی انتشاری کیفیت اور بے چینی کو بھی اپنی گرفت میں لینے کے عمل سے دوچار ہے۔ ان کی غزلوں کے اشعار میں اگر کہیں لہجے میں ناراضگی اور غصے کے عناصر جھلکتے نظر آتے ہیں تو اس کا سبب بھی معاشرتی زندگی سے ملنے والے وہ زخم ہیں جنہیں عام لوگوں کے مقابلے میں شاعر و فن کار کا ذہن، شعور اور احساس جلدی قبول کرلیتا ہے ، بیکلؔ اپنی شاعری کے ذریعہ نہ تو اپنے عہد کی تاریخ لکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی خیالی دنیا کے فن کار ہیں بلکہ ان کی شاعری ہندوستان کے اسی فیصد عوام کی زندگی کا آئینہ ہے اسی لیے وہ کہتے ہیں:
سنیئے جناب میرا ہی ہندوستاں ہے نام
کھیتی مرا اصول ہے فاقہ سبھاؤ ہے
ہم کہیں ہندو کہیں مسلم بنے بیٹھے ہیں
دھرم کے چوپال پر سارا وطن جلتا رہا
ہرے کھیتوں کو سوکھے کی نشانی دے کے آئی ہے
یہ برکھا جانے کن پودوں میں پانی دے کے آئی ہے
تیرے ہیں سب رنگ ترنگ جوانی کے
فٹ پاتھوں پر بھوکا بچپن کس کا ہے
 آسودہ لوگوں کی چھت پر دھن دولت برسانے والے
بھوکے کنگالوں کے گھر بھی کچھ آٹا کچھ چاول برسے
برسوں بعد بدیس سے اپنے گاؤں کو لوٹا ہوں
اب مکھیا کی لال حویلی چھوٹی لگتی ہے
ہر ایک ہاتھ ہے خون میں بھیگا چہرے زخمی ہیں
 یوں بھی میرے شہر میں امن کی بازی لگتی ہے
سبھی کرنے لگیں چرچا خود اپنی بے گناہی کا
بتاؤ اس سے بڑھ کر کیا گنا ہوں کی سزا ہوگی
 اس طرح بیکلؔ اتساہی ہمیں اپنے شعروں کے ذریعہ ان گلیوں، بستیوں، چھوٹے چھوٹے تاریک سیلن بھرے اور بدبو دار جھونپڑوں و مکانوں تک لے جاتے ہیں جہاں کی تنگ و تاریک زندگی آج ہندوستانی عوام کے ایک بڑے حصے کا مقدر بن چکی ہے،یہیں ہمیں زندگی کی سچی اور حقیقی کشمکش نظر آتی ہے۔ زندگی کی بقا کی یہ کشمکش وجود اور فرد کی بقا کی کشمکش سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
 بیکلؔ کی غزلیں زندگی اور زندہ رہنے کی حرارت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے آج کے انسان کی ان تمام تکالیف کا منظر نامہ ہیں جن سے وہ ہر لمحہ گزرتے ہوئے جنگ کررہا ہے ۔ ان کیفیات میں ہماری دھرتی اور مٹی کی سوندھی خوشبو کے امتزاج نے ایک الگ فضا تعمیر کردی ہے۔ بیکل ؔ نے اپنی غزلوں کو شہری فضا اور ماحول سے نکال کر گاؤں کے ماحول و فضا سے ہم آہنگ کردیا ہے ۔ اردو غزل کی تاریخ میں یہ ایک اچھا اور کامیاب تجربہ ہے ۔ کیفیت ہمیں غزل میں بیکلؔ سے پہلے بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے اس لیے اگر یہاں میں یہ کہوں کہ بیکلؔ کی غزلیہ شاعری جہاں ایک جانب ہمارے شعری اقدار، جمالیات اور زندگی کے اظہار کا خوبصورت وسیلہ ہیں تو وہیں دوسری جانب وہ ہمیں اپنی دھرتی سے جوڑنے اور مٹی کی سوندھی خوشبو سے ہمارے دل و دماغ کو معطر کرنے کا بھی کام کرتی ہیں ۔ بیکلؔ اتساہی کی غزلوں کی انہیں خوبیوں کے پس منظر میں انہیں مٹی کی خوشبوں کا شاعر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

Post a Comment

0 Comments