About Me

header ads

اقبال کی نظم ’’ذوق وشوق‘‘: ایک جائزہ

اقبال کی نظم ’’ذوق وشوق‘‘: ایک جائزہ
ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی


بال جبریل میں شامل ڈاکٹر اقبال کی نظم  ’’اقبال کی نظم-’’ذوق و شوق‘‘کے بارے میں محققین ناقدین اور کلام اقبال کے شارحین نے دو طرح کے نظریات پیش کیے ہیں- بعض ماہرین اقبالیات نے اسے حمد قرار دیا ہے اور بعض نے نعت- زیر نظر نظم کو حمد قرار دینے والوں میں ڈاکٹر عبد المغنی پیش پیش ہیں-انہوں نے اپنے مندرجہ ذیل تصانیف میں اسے ’’حمد خدا وندی‘‘ قرار دیا ہے: 
۱- اقبال اور عالمی ادب مطبوعہ اقبال اکیڈمی، لاہور، طبع دوم ۱۹۹۰ء 
۲- اقبال کا فن نظم مطبوعہ اقبال اکیڈمی، لاہور 
۳- اقبال کا ذہنی ارتقا، مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند، دہلی
اس نظم کو ’’نعت‘‘ قرار دینے والے ماہرین اقبالیات کی تعداد زیادہ ہے، ان میں چند حضرات کے اسماء قابل ذکرہیں- جیسے : 
۱- نسیم امروہوی: فرہنگ اقبال مطبوعہ لاہور
۲- عبادت بریلوی: ڈاکٹر اقبال- احوال و افکار، مطبوعہ لاہور 
۳- یوسف سلیم: شرح بال جبریل مطبوعہ عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور
۴۔ میزان اقبال، مطبوعہ اقبال اکادمی لاہور، از: مرزا منور
۵۔ غلام رسول مہرؔ: مطالب بال جبریل مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء وغیرہ ۔ راقم اس نظم کو نعتؔ تسلیم کرتا ہے۔
یہ نظم ’’ذوق و شوق‘‘ پانچ بندوں پر مشتمل ہے- اس نظم کے چوتھے بند 
لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
سے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پاک کا بیان صاف ظاہر ہے-
پہلا بند اس طرح ہے:
قلب و  نظر کی زندگی، دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں
حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزارسود، ایک نگاہ کا زیاں
سرخ کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب
کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں
گرد سے پاک ہے ہوا، برگ نخیل دھل گئے
ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں
آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی
اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی
روضۂ پاک رسول کریم کی زیارت کی اقبالؔ کو بڑی تمنا تھی لیکن ان کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکی لہذا اس نظم کی تخلیق اسی محرومی کے سبب ہوئی یعنی یہ ایک عاشق رسول کے جذبات فراق کی آئینہ دار ہے-
شاعر (اقبالؔ) تصوراتی طور پر روضۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گامزن ہے۔ وہ جب مدینہ امینہ کے نزدیک کوہ اضم (مدینہ منور کے نواح میں ایک پہاڑی کا نام ہے) کے مقام پر پہنچتا ہے تو گزر گاہ محبوب کے قدرتی حسن سے از حد متاثر ہوتا ہے-صبح کا سہانا سماں ہے، چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں دواں ہیں، ازل کا سارا حسن نگاہوں کے سامنے ہے، شب کا سحاب سرخ اور پتلی بدلیاں چھوڑ گیا ہے، رات کی بارش سے ہوا گرد و غبار سے پاک و صاف ہوگئی ہے، درختوں کے پتے دھل کر نکھر گئے ہیں، نواح کاظمہ (کاظمہ- مدینہ شریف کے اسماء میں ایک نام ہے) کی ریگ ریشم کی طرح نرم ہے- سبحان اللہ! ان مناظر میں وہی حسن جلوہ نما ہے جو تخلیق کائنات کے وقت ظاہر ہوا تھا جس سے پردۂ وجود چاک ہوجاتا ہے لیکن اس حسن ازل کو دیکھنے کے لیے ظاہری آنکھ بند کرنی پڑتی ہے-
ایسے میں شاعر کو ایک مقام نظر آتا ہے جہاں بجھی ہوئی آگ اور ٹوٹی ہوئی طناب بتاتی ہیں کہ اور بھی قافلے اسی راستے لے قصر محبوب (مدینہ امینہ) کی طرف گئے ہیں۔ اتنے میں شاعر کوصدائے جبریل سنائی دیتی ہے   ؎
اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی
شاعر جسے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اپنا درد دل بیان کرنا تھا، صدائے جبریل سن کر وہیں رک جاتا ہے لیکن کیفیات قلبی زبان حال سے ظاہر ہوتی ہیں   ؎
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات
کہنہ ہے بزم کائنات، تازہ ہیں میرے واردات
یہاں شاعر ملت اسلامیہ کے زوال، بے علمی و بے عملی اور جذبۂ جہاد سے محرومی کا گلہ کرتا ہے   ؎
کیا نہیں اور غزنوی کار گہ حیا ت میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات
ذکر عرب کے لو زمیں، فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیلات
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوائے دجلہ و فرات
یہاں شاعر (اقبالؔ) نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انقلابؔ اور جہادؔ کے استعارہ کے طور پر پیش کیا ہے- وہ اظہار تاسف کرتا ہے کہ آج پوری امت مسلمہ میں کوئی حسین نہیں ہے جو غلبۂ اسلام کی خاطر خود کو قربان کردے-
شاعر کے نزدیک ملت اسلامیہ کے زوال، بے علمی و بے عملی وغیرہ امراض کا سبب عشق سے محرومی ہے کیوںکہ یہ عشق راہبر بھی ہے اور قوت بھی اور یہ عشق نہ ہو تو عقل و دل و نگاہ بتکدۂ تصورات ہیں   ؎
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات
عشق ایک ایسا معشوق ہے جو مختلف مظاہر میں جلوہ گر ہوتا ہے چنانچہ معرکۂ وجود یعنی روح و بدن کے معرکہ میں صدق خلیل (سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا بیٹے کو قربان کردینے کا جذبہ اور نار نمرود میں کود کر رضائے الٰہی کا عملی نمونہ پیش کرنا بھی عشق ہے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا امتحان صبر و رضا میں یعنی ملت اسلامیہ کی سرخروئی اور بقاء کے لیے خود کو اور اپنے کنبے کو قربان کردینا بھی عشق ہے، بدر و حنین کا معرکۂ جہاد بھی عشق ہی کی جلوہ گری ہے-
اس کے بعد تیسرا بند شروع ہوتا ہے:
آیۂ کائنات کا معنی دیر یاب تو
 نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ وبو!
جلوتیان مدرسہ، کور نگاہ و مردہ ذوق 
خلو تیان میکدہ کم طلبی وتہی کدو!
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سر گزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو !
باد صبا کی موج سے نشو ونمائے خار وخس
میرے نفس کی موج سے نشوونمائے آرزو!
خون ودل وجگر سے ہے میری نواکی پرورش 
ہے رگ سازمیں رواں صاحب ساز کا لہو !
شاعر معرکۂ بدروحنین سے خواجہ بدروحنین صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رب قدیر نے سب سے پہلے خلق فرمایا تھا لیکن بعثت میں آپ تمام انبیاء ومرسلین کے آخر میں تشریف لائے-گویا آپ ’’آیہ کائنات کا معنی دیریاب ‘‘ہیں۔چونکہ یہ کائنات آپ ہی کے وسیلے سے اور آپ ہی کی خاطر خلق فرمائی گئی ہے لہذا اول سے ابد تک رنگ وبو کا ہر قافلہ آپ ہی کا متلاشی ہے۔ اس کے بعد شاعر علماء وصوفیہ کی کور نظری ،مردہ ذوقی اور روحانی فقدان کا شکوہ کرتا ہے - وہ ان خرابیوں کے سدباب کے لیے اسلاف کرام کے نقوش قدم پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور ’’کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘کو اپنی شاعری کا نصب العین قرار دیتا ہے-شاعر یہ بھی کہتا ہے کہ باد صباچلنے سے خار وخس کی نشوونما ہوتی ہے، میری نوا کی پرورش دل وجگر کے لہو سے ہوئی ہے اور میری ساز  کے رگ رگ میں صاحب ساز کا لہو رواں دواں ہے- یہ شعر :
فرصت کشمکش مدہ ایں دل بیقرار را
یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را
اس بند کا ٹیپ کا شعر ہے- یہ’’ زبور عجم ‘‘کی ایک غزل کا مطلع ہے- اس کے بعد چوتھے بند کا آغاز ہوتا ہے -اس مطلع کے بارے میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:’’یہ مطلع ہے اس غزل کا جو انہوں نے نعت میں لکھی ہے‘‘-
(شرح بال جبریل ص۵۵۳،عشرت پبلشنگ ہائوس،لا ہور)
در اصل اس نظم ’’ذوق وشوق ‘‘کے لیے ’’زبور عجم‘‘کی نعتیہ غزل کے مطلع کا انتخاب اس کے نعتیہ ہونے کا ایک واضح ثبوت ہے-
اب چوتھا بند شروع ہوتا ہے یعنی:
لوح بھی تو ، قلم بھی تو ،تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
یہ چوتھا بند ایک شاہکا ر نعت ہے جس کا ہر ہر شعر عشق وعقیدت میں ڈوبا ہواہے- اس میں حضور جان نور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست خطاب ہے-
اس بند کے مزید اشعار ملاحظہ کیجئے :
عالم آب وخاک میں تیرے ظہورسے فروغ
 ذرہ ریگ کو دیا تونے طلوع آفتاب 
شوکت سنجر وسلیم تیرے جلال کی نمود 
فقر جنید وبا یزید تیرا جمال بے نقاب 
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب!
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل و غیاب و جستجو ، عشق و حضور و اضطراب
تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے
طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے
اقبالؔ نے حضور صلی اللہ علی وسلم کو ’’لوح و قلم‘‘ کہا ہے اور ان کے وجود مبارک کو ’’الکتاب‘‘ بتایا ہے۔ یہاں ’’لوح بھی تو قلم بھی تو‘‘ وغیرہ سے مراد ہے کہ لوح و قلم وغیرہ سب آپ ہی کے نور سے خلق کیے گئے ہیں اور ان سب پر آپ ہی کا اختیار ہے- آپ ہی ’’اصل تکوین عالم‘‘ بھی ہیں اور ’’سرور کائنات‘‘ بھی! 
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اوصاف اور ان کی عظمت شان بیان کرتے ہوئے اقبالؔ نے ان کی سیرت مبارکہ کا بہت ہی جامع بیان پیش کیا ہے- وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’الکتاب‘‘ کہتے ہیں اور یہ وہ بلاغت ہے جو شاعری کی جان ہے۔ اس میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس قول کی تلمیح ہے جس میں انہوں نے حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ’’خلق‘‘ کو ’’قرآن مجید ‘‘ قرار دیا تھا-
اقبالؔ حضور نبی لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ایجاد عالم کا مادہ اور باعث قرار دیتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ یہ ’’آبگینہ رنگ گنبد‘‘ آپ کے محیط میں حباب کی مانند ہے اور ’’عالم آب و خاک‘‘ میں آپ ہی کے ظہور سے فروغ ہے-اس کے بعد اقبالؔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے ’’ذرہ ریگ‘‘ یعنی عرب کی بے مایہ قوم کو عظمت عطا کی ، انہیں اسلام اور معرفت خداوندی کا اجالا بخش کر تابناک کردیا- سلاطین اسلامیہ کی شوکت و سطوت اور اولیاء و اصفیاء کی ولایت و فقر کا جلال و جمال آپ ہی کی بخشش ہے۔ وہ سنجر وسلم یعنی خواجہ معین الدین سنجری اور شیخ سلیم الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہما کی ولایت کا جلال ہو یا حضرت جنید بغدادی اور حضرت بایزید بسطامی قدس سرھما کے فقر کا جمال ہو-
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی عبادت کا محرک ہے اور صرف عبادت ہی نہیں بلکہ حقیقۃً رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی عین ایمان ہے-اقبالؔ نے یہاں سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت سے خالی نماز کو’’حجاب محض‘‘ بتایا ہے- اقبالؔ کہتے کہ یہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی نگہ ناز کا اعجاز ہے کہ عقل و عشق اور ان کے فروعات کو ان کی مرادیں حاصل ہوگئیں-
بند کے آخر میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے استمداد کی گئی ہے کہ یہ جہان آفتاب کی گردش کے باوجود بھی تیرہ و تار ہے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان نظر کے بغیر منور ہو بھی نہیں سکتا لہٰذا اے حاضر و ناضر رسول! ’’زمانے کے مزاج کو اپنے بے حجاب جلوے سے تازگی بخٰشیے۔‘‘ اس سلسلے میں اقبال ؔ نے اپنے عقیدہ کا اظہار بھی کیا ہے۔ ۱۴جنوری ۱۹۳۲ کے خط میں وہ نیاز الدین خاں کو لکھتے ہیں: ’’میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہوسکتے ہیں جس طرح صحابہ ہوا کرتے تھے لیکن اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہوگا، اس واسطے خاموش رہتا ہوں‘‘-(مکاتب اقبالؔ بنام خان نیاز الدین خاں، خط نمبر ۵۴، ص۱۶۰، مرتبہ اقبالؔ اکادمی، لاہور ۱۹۸۶ء)
آخری بند اس طرح ہے:
تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم تخیل بے رطب
تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب
گاہ بحیلہ می برد، گاہ بزور می کشد
عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب
عالم  سوز و سازمیں وصل سے بڑھ کر ہے فراق
وصل میں مرگ آرزو! ہجر میں لذت طلب
عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا
گرچہ بہا نہ جور ہی میری نگاہ بے ادب
گرمی آرزو فراق! شورش ہائے ہو فراق
موج کی جستجو فراق، قطرہ کی آبرو فراق
اس بند میں علم و عقل کی نارسائی اور عشق کے فیوض و برکات کا ذکر ہے- اس بند کے مصرع: ’’عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب‘‘ میں اقبالؔ نے عشق کو اسلام کا اور عقل کو کفر کا استعارہ بنایا ہے- بیشک عشق تمام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور عشق مصطفی ہی ایمان ہے اور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جان جہان اور رحمتوں کی جان ہیں-
وصال و فراق کے فلسفہ پر اقبالؔ نے اس شعر میں روشنی ڈالی ہے:
عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا
گرچہ بہانہ جو رہی مری نگاہ بے ادب!
اس شعر کی اصل یہ ہے کہ اقبالؔ مدینہ منورہ حاضر ہونا چاہتے تھے، سفر سامان بھی تیار تھا لیکن وہ جا نہ سکے۔ اس کا جواب فقیر سید وحید الدین صاحب، اقبالؔ کی زبانی یوں پیش کرتے ہیں:
’’والد مرحوم نے اثنائے گفتگو میں کہا: اقبالؔ تم یورپ ہو آئے، مصر اور فلسطین کی بھی سیر کی، کیا اچھا ہوتا کہ واپسی پر روضۂ اطہر کی زیارت سے بھی آنکھیں نورانی کرلیتے؟ یہ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کی حالت دگر گوں ہوگئی یعنی چہرے پر زردی چھاگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ چند لمحہ تک یہی کیفیت رہی پھر کہنے لگے: فقیر کس منہ سے روضۂ اطہر پر حاضر ہوتا-‘‘(وحید الدین سید فقیر: روزگار فقیر جلد اول ص:۳۷)
’’مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا‘‘ کی یہی توجیہہ درست بھی ہے-
اقبالؔ دراصل ایک بہت ہی با حیا و باغیرت اور با ادب عاشق رسول تھے اور وہ روضۂ حبیب کی تمنائے شدید رکھتے ہوئے بھی ایک تو مشیت ایزدی کہ جا نہ سکے، دوسرے یہ کہ اپنی بے عملی کے ساتھ سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روبرو جاتے ہوئے شرم آتی تھی۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہیں اور اس عظیم و جلیل اور مقدس و باوقار آقا اور حبیب کے روبرو دعوائے عشق کرتے ہوئے بھی اپنی کوتاہیوں اور بے عملی کے ساتھ کس طرح حاضر ہوتے اور اسی لیے وہ اس فراق کو لذت طلب قرار دیتے ہوئے اس کی مزید صفات گناتے ہیں کہ
گرمی آرزو فراق ، شورش ہائے ہو فراق

Post a Comment

0 Comments