اقبال اور عورت: ایک جائزہ
الیاس انصاری عارفی
عورت سے متعلق اقبال کے تصورات و نظریات بھی ان کی شاعری کے دیگر اہم موضوعات کی طرح کتاب و سنت کی تعلیمات سے حد درجہ مماثل و مشابہ ہیں، اس لیے قبل اس کے کہ ہم براہ راست اس موضوع پر اظہار خیال کریں بہتر ہوگا کہ عورت کے سلسلے میں قرآن و احادیث کے احکام وتعلیمات کا ایک سرسری جائزہ لے لیں-
قرآن کا ارشاد ہے ’’وہ (عورت) تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘ قرآن کی یہ آیت سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مصداق ہے- اس کا تجزیہ کرنے سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ عورت کی عفت و پاکبازی اور مرد کی پاکیزگی اور پاک دامنی ایک دوسرے پر منحصر ہے- علاوہ ازیں مرد و زن معاشرتی اور تمدنی زندگی کے اغراض و مقاصد کے لیے ایک دوسرے کے محتاج ہیں-
قرآن کایہ بھی فرمان ہے کہ ’’مرد عورت پر حاکم ہے-‘‘ یہ آیت بھی انتہائی فکر انگیز ہے- مرد کو عورت پر حاکم بنانے میں قدرت کی منشا یہ ہے کہ عورت کا نسوانی جوہر اور اس کی تقدس مآب زندگی بغیر مرد کی حاکمیت کے برقرار نہیں رہ سکتی- آج دنیا میں ہر چہار جانب عورت کے تعلق سے جو پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں اور آزادیٔ نسواں کے سبب جس طرح کی بے حیائی اور فحاشی کا بازار سرگرم ہے اور اس کے جو مہلک نتائج برآمد ہو رہے ہیں، اس کا واحد سبب اسی مذکورہ آیت کی خلاف ورزی ہے-
ایک دوسری آیت میں اللہ رب العزت کا حکم ہے کہ ’’تمھاری عورتیں تمھارے لیے کھیتی ہیں- اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو کاشت کرو اور اپنے مستقبل کا سر و سامان کرو-‘‘ اس فرمان عالی شان میں ذات واجب نے عورت کو کھیت سے تشبیہ دے کر اس حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ عورت محض خواہشات نفسانی کی تکمیل کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اس کی اصل غرض و غایت انسانی نسل کو برقرار رکھنا ہے- قدرت نے اس مقصد کو پورا کرنے کی غرض سے عورت کی تخلیق کی ہے- یہ انتہائی عظیم الشان مقصد ہے، دوسرے جملہ مقاصد اس کے آگے ہیچ ہیں- جس طرح ایک کسان اپنے کھیت میں صرف بیج ڈال کر اپنی کھیتی سے مطمئن نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کی متعلقہ ضرورتوں کی فراہمی بھی کرتا ہے اور نگرانی بھی- بعینہ مرد کی ذمہ داری عورت کی مکمل حفاظت کرنا اور بقائے نسل انسانی کی خاطر اس کی مکمل نگرانی رکھنا ہے تاکہ وہ اپنی صنفی اور تخلیقی کمزوریوں کے سبب بے راہ روی کا شکار نہ ہو جائے-
حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا کہ ’’عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو- تمھارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے-‘‘ ایک دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے-‘‘ اللہ کے رسول کے اس فرمان کا مقصد جہاں عورتوں کی عظمت کو اجاگر کرنا ہے وہیں فرائض امومت (مادری) کی اہمیت کو بھی واضح کرنا ہے-
قرآن و احادیث کی مذکورہ بالا تعلیمات کے تناظر میں اب آئیے عورت سے متعلق اقبال کے تصورات و نظریات کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیا جائے- عورت کے سلسلے میں اقبال کے تصورات و نظریات بھی وہی ہیں جو کتاب و سنت کے ہیں البتہ اس پر فلسفیانہ رنگ غالب ہے- وہ عورت کو اسی دائرے میں دیکھنا چاہتے ہیں جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے اور اسی بنا پر وہ آزادیٔ نسواں اور مرد و زن کی مساوات مطلق کو جو مغربی تہذیب کی دین ہے، پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں- ’’آزادیٔ نسواں‘‘ کے عنوان سے وہ کہتے ہیں- ؎
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں مردانِ خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادیٔ نسواں کہ زمرد کا گلو بند
عورت کی آزادی اور اس کی اعلیٰ تعلیم کے سبب ہی معاشرے میں طرح طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور عورتیں اپنے نسوانی جوہر سے غافل ہو کر مردوں کے دوش بدوش کھڑا ہونے اور سیاست و معیشت میں اپنی حصہ داری کو ترقی تصور کرتی ہیں- علاوہ ازیں فرائض امومت کی انجام دہی سے لاپرواہ ہوتی ہیں- اقبال نے اپنے ایک لکچر میں اس حقیقت کی طرف واضح لفظوں میں اشارے کیے ہیں-
’’میں مرد و عورت کی مساوات مطلق کا حامی نہیں ہوں- قدرت نے ان دونوں کی خدمتیں جدا جدا تفویض کی ہیں اور ان فرائض جداگانہ کی صحیح اور باقاعدہ انجام دہی خانوادۂ انسانی کی صحت اور فلاح کے لیے لازمی ہے- مغربی دنیا میں جہاں نفسی نفسی کا ہنگامہ ہے اور غیر معتدل مسابقت نے ایک خاص قسم کی اقتصادی حالت پیدا کر دی ہے، عورتوں کو آزاد کر دیا جانا ایک ایسا تجربہ ہے جو میری دانست میں بجائے کامیاب ہونے کے الٹا نقصان رساں ثابت ہوگا، اور نظام معاشرت میں اس سے بے حد پیچیدگیاں واقع ہو جائیںگی اور عورتوں کی اعلیٰ تعلیم سے بھی جس حدتک افراد قوم کی شرح ولادت کا تعلق ہے جو نتائج مرتب ہوںگے وہ بھی غالباً پسندیدہ نہ ہوںگے-
(روح اقبال از یوسف حسین خاں صفحہ ۳۳۴)
اقبال نے اپنی شاعری کے توسط سے مغربی تہذیب کے ہر اس پہلو کی مخالفت کی ہے اور ان خامیوں کو اجاگر کیا ہے جس کے سبب معاشرے میں فاسد عناصر جنم لیتے ہیں اور مادیت کا غلبہ اور روحانیت کا فقدان ہوتا ہے- عورت کے حوالے سے بھی انھوں نے مغربی تہذیب کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے- ؎
تہذیب فرنگی اگر مرگ امومت
ہے حضرت انسان کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اس علم کو ارباب ہنر موت
ایک جگہ انھوں نے کہا ہے کہ عورت کی ایسی تعلیم جو اس کی نسوانی جوہر چھین کر ذاتی اور انفرادی آرام و آسائش میں مشغول کر دے اور عفت و شرافت کو نقصان پہنچائے تو ایسا گل ہمارے معاشرے اور ہماری تہذیب میں نہ کھلے تو بہتر ہے- ؎
علم او بار امومت بر نتافت
بر سر شاخش یکے اختر نتافت
ایں گل از بستان ما نا رستہ بہ
داغش از دامانِ ملت ششتہ بہ
اقبال یورپ کے حکیموں سے عورت کے تعلق سے یوں سوال کرتے ہیں-
کوئی پوچھے حکیم یورپ سے
ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بے کار وزن تہی آغوش
آزادیٔ نسواں کے سبب اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے باعث ازدواجی اور خانگی زندگی میں جو ناخوشگوار حالات و لمحات در پیش ہوتے ہیں اور جس طرح مرد و زن کا رشتہ ایک دوسرے سے منقطع ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کے جو غلط اور برے نتائج برآمد ہوتے ہیں اس سے اقبال باخبر ہیں- ’’مرد فرنگ‘‘ کے عنوان سے وہ کہتے ہیں- ؎
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بے چارہ زن شناس نہیں
اقبال کے مطابق عورت محض جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اس کی حیات کی اصل غرض و غایت نسل انسانی کو برقرار رکھنا ہے- اسی میں عورت کی عظمت کا راز مضمر ہے- عورت کی عظمت و رفعت کا یہ عالم ہے کہ تصویر کائنات کی تمام تر رنگینی و رعنائی اسی کے دم سے ہے- عورت کے بغیر کائنات ادھوری اور بے جان ہے- اسی کی بدولت حیات انسانی کا سوز دروں قائم اور زندگی حرکت و عمل پر گامزن ہے- عورت ثریا سے بھی بالا تر ہے کیونکہ اسی کے بطن سے نبی، ولی، غوث، قطب، ابدال، فلسفی اور دانشور جنم لیتے ہیں اور اسی کی آغوش شفقت و رحمت میں پروان چڑھتے ہیں- عورت گو مکالمات افلاطون نہیں لکھ سکتی تاہم افلاطون کو جنم دے سکتی ہے- ؎
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درِّ مکنوں
مکالمات فلاطون نہ لکھ سکی لیکن
اس کے شعلہ سے ٹوٹا شرارِ افلاطون
عورت کی عظمت و شرف کو مد نظر رکھتے ہوئے اقبال نے امومت کو رحمت سے تعبیر کیا ہے اور نبوت سے تشبیہ دی ہے- ان کا کہنا ہے کہ اقوام کی سیرت سازی اور خودی کے استحکام میں شفقت مادر اور شفقت نبوت دونوں کی اہمیت ہے ؎
سیرت فرزندہا از امہات
جوہر صدق و صفا از امہات
گفت آں مقصود حرف کن فکاں
زیر پائے امہات آمد جناں
نیک اگر بینی امومت رحمت است
زانکہ او را با نبوت نسبت است
شفقت او شفقت پیغمبر است
سیرت اقوام را صورت گر است
اقبال کے مذکورہ بالا اشعار کے عمیق مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کوئی عورت حسن و جمال سے عاری لیکن دین دار ،دیانت دار، وفا شعار، صبر و رضا اور صدق و صفا جیسی بیش بہا خوبیوں سے مالامال ہو تو اس کے بطن سے یقینا حق پرست اور غیور مسلمان جنم لے سکتا ہے جو اپنی سیرت و کردار و عمل کے توسط سے اسلام کی حقانیت کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہوگا اور یہ اس عورت کا ایک عظیم کارنامہ کہلانے کا مستحق ہوگا-
کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اقبال عورتوں کی تعلیم و ترقی کے مخالف ہیں لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ وہ اس تعلیم کے مخالف ہیں جو عورت کو عریانیت و فحاشی میں مبتلا کرکے اس کے نسوانی جوہر کو نیست و نابود کر دیتی اور مردوں کے دوش بدوش لا کر کھڑا کر دیتی ہے اور جس کے سبب معاشرے میں طرح طرح کی پیچیدگیاں اور ناہمواریاں پیدا ہو جاتی ہیں- اقبال عورتوں کی ایسی تعلیم کے خواہاں ہیں جو ان کے نسوانی جوہر کو برقرار رکھے اور قانون قدرت اور اصول فطرت پر گامزن رکھتے ہوئے اقدار حیات کے تحفظ میں معاون و مددگار ثابت ہو اور وہ تعلیم خالص دینی اور اسلامی تعلیم ہے- یہ تعلیم جہاں عورت کو تقدس مآب زندگی عطا کرکے اصول فطرت پر گامزن رکھتی ہے وہیں تربیت اولاد کا سلیقہ اور شوہر سے تبادلۂ خیال کے آداب و ہنر سے بھی بہرہ ور کرتی ہے- نیز صالح معاشرے کی تعمیر و تشکیل اور اقدارِ حیات کے تحفظ میں مددگار بھی ثابت ہوتی ہے- ؎
بے گانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
آتش مارا بجانِ خود زند
جوہرِ او خاک را آدم کند
در ضمیرش ممکناتِ زندگی
از تب و تابش ثباتِ زندگی
یہی وجہ ہے کہ اقبال نے فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیاتِ مقدسہ کو مسلم عورتوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے- ؎
مزرعِ تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوۂ کامل بتول
آں ادب پروردۂ صبر و رضا
آسیا گرداں و لب قرآں سرا
فطرتِ تو جذبہ ہا دارد بلند
چشم ہوش از اسوۂ زہرہ بلند
تا حسینے شاخ تو بار آورد
موسم پیشیں بہ گلزار آورد
اقبال کے خیال میں بہترین مائیں ہی بہترین اور صالح اولاد کو جنم دے سکتی ہیں، اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہیں اور خاک کو آدم بنا سکتی ہیں- اس سلسلے میں ایک جگہ اقبال نے دختران ملت اور خواتین اسلام کویوں خطاب کرتے ہیں - ؎
زشام ما بروں آور سحر را
بہ قرآں باز خواں اہل نظر را
تو می دانی کہ سوز قرأتِ تو
دگر گوں کرد تقدیر عمر را
اقبال نے عورت کے پردے سے متعلق اپنے فلسفیانہ انداز میں اس حقیقت کی عقدہ کشائی کی ہے کہ جس طرح خدائے لم یزل پسِ پردہ نظامِ کائنات کو چلا رہا ہے اسی طرح عورت بھی پردہ میں رہ کر جملہ جائز کاموں میں حصہ لے سکتی ہے اور اپنے فرائض کو بخوبی انجام دے سکتی ہے- پردہ اس کے لیے رکاوٹ نہیں ہوسکتا- ؎
جہاں تابی ز نور حق بیا موز
کہ او باصد تجلی در حجاب است
’’خلوت‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک چھوٹی سی نظم میں اقبال کہتے ہیں کہ اپنی ذات کے امکانات سے شعور و آگہی کی خاطر عورت کے لیے خلوت ناگزیر ہے- جلوت کی ہوس رسوائی کا باعث ہے- اس سے نگاہ تو روشن ہوسکتی ہے مگر آئینہ دل مکدر ہوتا ہے اور جب کسی عورت کا آئینہ دل مکدر ہو جائے تو اس کی ترقی کے جملہ اسباب بے معنی ہو جاتے ہیں اور وہ بذات خود بے معنی اور بے قیمت ہو جاتی ہے- فطرت کا اصول یہ ہے کہ ذوق نظر جب تک اپنے حدود میں ہوتا ہے پاکیزہ جذبات و افکار جنم لیتے ہیں اور جب اپنے حدود سے تجاوز کرتا ہے تو خیالات پراگندہ اور جذبات ابتر ہو جاتے ہیں- جس طرح صدف کی آغوش میں قطرۂ نیساں جوہر بنتا ہے اسی طرح خلوت میں ہی نسوانی جوہر کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے اور اسی میں عورت کی عظمت اور ترقی کا راز مضمر ہے- ؎
رسوا کیا اس دورکو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ، آئینۂ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوشِ صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر و لیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر
اقبال نے ’’عورت کی حفاظت‘‘ کے عنوان سے ’’ضرب کلیم‘‘ کی ایک چھوٹی سی نظم میںاس حقیقت کو بے نقاب کیا ہے کہ نسوانیتِ زن کی محافظت نہ تو پردہ سے ممکن ہے اور نہ ہی نئی یا پرانی تعلیم سے بلکہ عورت کا حقیقی محافظ اور نگہبان قدرت نے مرد کو قرار دیا ہے کیونکہ جب خیالات پراگندہ و ابتر ہوتے ہیں تو پردہ و تعلیم ہونے کے باوجود عورت بے راہ روی کا شکار ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اس لیے مرد کو کسی بھی حال میں اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر اپنی عورتوں کی طرف سے لاپرواہی نہیں برتنی چاہیے بلکہ اپنی حاکمیت برقرار رکھتے ہوئے فطرت کے اصول اور قدرت کے قانون پر چلنے کی تلقین کرتے رہنا چاہیے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی مشقت کیوں نہ اٹھانی پڑے- اقبال کے مطابق جو قوم اس زندہ حقیقت سے نابلد ہوتی یا دانستہ طور پر آنکھیں چراتی ہے وہ گوناگوں معاشرتی اور تمدنی مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے اور اس کے اقبال کا سورج بہت جلد زردہو جاتا ہے- ؎
ایک زندہ حقیقت میرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کے پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
مذکورہ بالا مباحث کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اقبال نے عورت کے تعلق سے اپنی شاعری اور اپنے لکچر میں جو بھی افکار و نظریات پیش کیے ہیں وہ فلسفیانہ اور حکیمانہ ہونے کے ساتھ ہی ساتھ قرآن و احادیث کی تعلیمات سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں- اس ضمن میں ان کی باتیں دور حاضر کے خلاف ایک طرح سے اعلانِ جنگ کی حیثیت رکتھی ہیں-میں یہاں پروفیسر رشید احمد صدیقی کی جامع رائے کو پیش کرتے ہوئے اس موضوع کو ختم کرتا ہوں- وہ اپنی تصنیف ’’اقبال شخصیت اور شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں-
’’اقبال نے خدا، عورت، انسان اور شیطان کو اردو شاعری سے جس طرح متعارف کیا اس سے ہمارے ادب، ہماری زندگی اور ہمارے سوچنے اور محسوس کرنے میں بڑا گراں قدر انقلاب آیا‘‘
(’’اقبال شخصیت اور شاعری‘‘ صفحہ ۱۳۱)
0 Comments