About Me

header ads

احمد فراز

احمد فراز
دنیائے شعر وسخن کی ایک معتبر آواز


بلا شبہ نثر کے مقابلے شاعری زیادہ اثر انگیز ہے- یہ عظمت صرف اردو ادب کو نہیں، بلکہ دنیائے ادب کی ہر اس شاعری کو حاصل ہے جو قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہی ہے- لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کروڑوں شاعروں کے ازدحام میں چند ایک شعرا کو ہی قبولیت و شہرت مل سکی ہے، نہ ہر کلام مشہور ہوا، نہ ہر شاعر مقبول۔
بیسوی صدی میں اقبال اور فیض احمد فیض کے بعد اردو شاعری میں قبولیت عام حاصل کرنے میں جو شاعر کامیاب رہا، دنیائے شعر و سخن اسے’’ احمد فراز‘‘کے نام سے جانتی ہے۔
احمد فراز ۱۲؍ جنوری ؍۱۹۳۱ ء کو ’’خیبر پختونخوا‘‘ کے شہر ’’کوہاٹ، پاکستان‘‘ میں پیدا ہوئے۔ اصل نام سید احمد شاہ، تھا۔ اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ ’’ایڈورڈ کالج‘‘ (پشاور ) میں حصولِ تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنا شروع کیے۔ جب آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘شائع ہوا تو آپ بی اے میں تھے۔ تکمیلِ تعلیم کے بعد ریڈیو سے علاحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کر لی۔ اسی ملازمت کے دوران آپ کا دوسرا مجموعہ ’’درد آشوب‘‘ چھپا، جس کو پاکستان رائٹرز گلڈ کی جانب سے’’ آدم جی ادبی ایوارڈ ‘‘ دیا گیا۔
دنیائے ادب میں احمد فراز ایک معتبر آواز ہے، احمد فراز کی شاعری کو غور سے پڑھا گیا اور شوق سے سنا گیا۔ سوز و گداز اور ہجر و وصال احمد فراز کی شاعری کا حوالہ ہیں۔ احمد فراز نے جہاں رومانوی شاعری کی، وہیں ایسے اشعار بھی کہے جو نوجوانوں کی فکری آبیاری کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
احمد فراز کی شاعری کے ترجمے دنیا کی کئی بڑی زبانوں مثلا فرانسیسی، ہالینڈ، یوگو سلاوی، روسی، پنجابی، جاپانی وغیرہ میں طبع ہوکر داد وصول کر چکے ہیں- ان کا شمار پاکستان کے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے-
۱۹۷۶ ء میں احمد فراز کو ’’اکادمی ادبیات، پاکستان‘‘ کا پہلا سر براہ بنایا گیا۔۲۰۰۴ء میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں انھیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا، لیکن دو برس بعد انھوں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔
احمد فراز کے آخری ایام علالت میں گزرے۔ ۲۵ ؍ اگست ۲۰۰۸ ء کو اسلام آباد کے مقامی اسپتال میں ان کا وصال ہوا۔ زندگی کا پورا عرصہ ۷۷؍ سال کو محیط ہے۔
احمد فراز نے ’’تنہا تنہا، درد آشوب، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، جاناں جاناں، اور سب آوازیں میری ہیں‘‘ جیسے خوب صورت مجموعے یاد گار چھوڑے، جو دنیائے ادب میں انھیں دائمی حیات بخشنے کے لیے کافی ہیں۔



احمد فراز کی شاعری کے چند دل آویز نمونے:

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر 

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں 
----------------------------

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے 
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں 
----------------------------
کچھ تو مرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ 
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ 
----------------------------
اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں 
کتنی رغبت تھی ترے نام سے پہلے پہلے 
----------------------------
اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا 
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا

Post a Comment

0 Comments