" ابن انشا "
ابن انشا کا شمار اردو کے ان مایہ ناز قلم کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے نظم و نثر دونوں میدانوں میں اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ ایک جانب وہ اردو کے ایک بہت اچھے شاعر تھے دوسری جانب وہ مزاح نگاری میں بھی اپنا ثانی نہ رکھتے تھے اور کالم نگاری اور سفرنامہ نگاری میں ایک نئے اسلوب کے بانی تھے۔
ابن انشا کا اصل نام شیر محمد خان تھا، وہ 15 جون 1927ءکو موضع تھلہ ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔
انہوں نے 1960ءمیں روزنامہ امروز کراچی میں درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا۔ 1965ءمیں روزنامہ انجام کراچی اور 1966ءمیں روزنامہ جنگ سے وابستگی اختیار کی جو ان کی وفات تک جاری رہی۔ وہ اک طویل عرصہ تک نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر رہے۔ زندگی کے آخری ایام میں حکومت پاکستان نے انہیں انگلستان میں تعینات کردیا تھا تاکہ وہ اپنا علاج کرواسکیں لیکن سرطان کے بے رحم ہاتھوں نے اردو ادب کے اس مایہ ناز ادیب کو ان کے لاکھوں مداحوں سے جدا کرکے ہی دم لیا۔
ابن انشا کا پہلا مجموعہ کلام چاند نگر تھا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں اس بستی کے ایک کوچے میں اور دلِ وحشی شامل ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کو کئی خوبصورت سفرنامے بھی عطا کئے جن میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اورنگری نگری پھرامسافرشامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتابوں میں اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم ،باتیں انشا جی کی اور قصہ ایک کنوارے کا قابل ذکر ہیں۔
ابن انشا کا اصل نام شیر محمد خان تھا، وہ 15 جون 1927ءکو موضع تھلہ ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔
انہوں نے 1960ءمیں روزنامہ امروز کراچی میں درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا۔ 1965ءمیں روزنامہ انجام کراچی اور 1966ءمیں روزنامہ جنگ سے وابستگی اختیار کی جو ان کی وفات تک جاری رہی۔ وہ اک طویل عرصہ تک نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر رہے۔ زندگی کے آخری ایام میں حکومت پاکستان نے انہیں انگلستان میں تعینات کردیا تھا تاکہ وہ اپنا علاج کرواسکیں لیکن سرطان کے بے رحم ہاتھوں نے اردو ادب کے اس مایہ ناز ادیب کو ان کے لاکھوں مداحوں سے جدا کرکے ہی دم لیا۔
ابن انشا کا پہلا مجموعہ کلام چاند نگر تھا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں اس بستی کے ایک کوچے میں اور دلِ وحشی شامل ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کو کئی خوبصورت سفرنامے بھی عطا کئے جن میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اورنگری نگری پھرامسافرشامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتابوں میں اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم ،باتیں انشا جی کی اور قصہ ایک کنوارے کا قابل ذکر ہیں۔
ابن انشا کا انتقال 11 جنوری 1978ءکو لندن کے ایک اسپتال میں ہوا اور انہیں کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
ابن انشا کی نظمی مہارت کے چند نمونے:
ابن انشا کی نظمی مہارت کے چند نمونے:
اپنے ہمراہ جو آتے ہو، ادھر سے پہلے
دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے
---------------------
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ھے کچھ نے کہا چہرا تیرا
ہم بھی وہیں موجودتھےہم سےبھی سب نےپوچھا کیے
ہم ہنس دیئے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا
اس شہرمیں کس سےملیں ہم سےتو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ، ہر شخص دیوانہ تیرا
--------------------
اب نگاہوں میں نہ خواہش ہے نہ حسرت نہ ملال
اب یہاں لب پہ کہاں حرف ِ سوال آتا ہے
ہم نے اپنے کو بہت دیر سنبھالا لیکن
دل ہے پتھّر تو نہیں اسمیں تو بال آتا ہے
اب ہمیں کس کی محبت کا یقین آئے گا
اُن کی بے زار نگاہوں کا خیال آتا ہے
0 Comments