وہ بھی کیا دن تھے کہ جب اپنے وطن میں ہم تھے
(اسید الحق محمد عاصم قادری بدایونی)
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب اپنے وطن میں ہم تھے
زاہد وصوفی ومے خوار جہاں باہم تھے
روبرو پیرِ مغاں مائلِ احسان بھی تھا
چھیڑ خوباں سے چلی جانے کا سامان بھی تھا
محفلِ بادہ کشی شام وسحر ہوتی تھی
ان کے الطاف وعنایت پہ نظر ہوتی تھی
روئے جاناں کو تکا کرتے تھے یکسو بیٹھے
سنتے تھے جام بکف نغمۂ کوکو بیٹھے
صبح گلشن میں تھی اور شام تھی مے خانے میں
ڈوبے رہتے تھے سدا بادہ وپیمانے میں
وہ تبسم وہ تکلم وہ نظارے وہ ادا
ہائے وہ توبہ شکن ان کے اشارے وہ ادا
جان ودل اپنے تھے اک موجِ تبسم پہ نثار
لبِ خنداں کے تصدق تو تکلم پہ نثار
رخ سے گیسو کبھی ہٹتے تو سحر ہوتی تھی
روئے تاباں کی چمک رشکِ قمر ہوتی تھی
حسنِ رعنا کے وہ انداز و ادائیں توبہ
عشقِ آوارہ کی وہ شوخ نگاہیں توبہ
تذکرہ ان کی اداوں کا ہوا کرتا تھا
اور کبھی ذکر وفاوں کا ہوا کرتا تھا
شیخ صاحب تھے ہمیں توبہ کرانے پہ مُصِر
مست ساقی تھا کہ بس پینے پلانے پہ مُصر
الغرض دَیر بھی تھا، مسجد وپیمانہ بھی
لب پہ توبہ کی صدا، ہاتھ میں پیمانہ بھی
عشقِ آوارہ کی وہ شوخ نگاہیں توبہ
تذکرہ ان کی اداوں کا ہوا کرتا تھا
اور کبھی ذکر وفاوں کا ہوا کرتا تھا
شیخ صاحب تھے ہمیں توبہ کرانے پہ مُصِر
مست ساقی تھا کہ بس پینے پلانے پہ مُصر
الغرض دَیر بھی تھا، مسجد وپیمانہ بھی
لب پہ توبہ کی صدا، ہاتھ میں پیمانہ بھی
ہائے کیا وقت تھا، کیا رُت تھی، زمانہ کیا تھا
جسم میں جان کا آنا تھا یہ جانا کیا تھا
غمِ جاناں، غمِ دوراں، غمِ فردا، غمِ دل
نہ کسی قسم کا غم تھا، نہ کوئی تھی مشکل
پھر سے افریقہ کے صحرا میں لے آیا ہے نصیب
زندگی کیا کٹے فرعون کی تربت کے قریب
آج ہم پھر اسی زندانِ کہن تک پہنچے
قد وگیسو سے چلے دار ورسن تک پہنچے
اب نہ وہ شام ڈھلے ان سے ملاقات رہی
اب نہ وہ رات گئے بزمِ خرابات رہی
اب نہ وہ صبح نہ وہ رات نہ وہ شام ہی ہے
اب نہ وہ جلوۂ جانانہ سرِ بام ہی ہے
اب نہ چلمن کے سرکنے کی وہ آواز رہی
اب نہ وہ پَر ہیں نہ وہ طاقتِ پرواز رہی
اب نہ وہ شمعِ فروزاں، نہ وہ پروانے ہیں
اب نہ وہ بادہ گساری، نہ وہ پیمانے ہیں
اب تو بس ہم ہیں اور اک گوشۂ تنہائی ہے
تو ہمیں گردشِ دوراں یہ کہاں لائی ہے
فصلِ گل کیسی بھلا موسمِ صہبا کیسا
روئے جاناں کے نظارے کہاں مینا کیسا
لطف باقی نہ رہا اب تو کوئی جینے میں
کچھ مزہ ہے تو یہی خونِ جگر پینے میں
آس اِک ان سے ملاقات کی ہاں باقی ہے
اسی امید پہ بس جسم میں جاں باقی ہے
اب نہ وہ لطف، نہ وہ کیف، نہ وہ مستی ہے
اب نہ وہ فصلِ بہاری، نہ وہ سر مستی ہے
*****
جسم میں جان کا آنا تھا یہ جانا کیا تھا
غمِ جاناں، غمِ دوراں، غمِ فردا، غمِ دل
نہ کسی قسم کا غم تھا، نہ کوئی تھی مشکل
پھر سے افریقہ کے صحرا میں لے آیا ہے نصیب
زندگی کیا کٹے فرعون کی تربت کے قریب
آج ہم پھر اسی زندانِ کہن تک پہنچے
قد وگیسو سے چلے دار ورسن تک پہنچے
اب نہ وہ شام ڈھلے ان سے ملاقات رہی
اب نہ وہ رات گئے بزمِ خرابات رہی
اب نہ وہ صبح نہ وہ رات نہ وہ شام ہی ہے
اب نہ وہ جلوۂ جانانہ سرِ بام ہی ہے
اب نہ چلمن کے سرکنے کی وہ آواز رہی
اب نہ وہ پَر ہیں نہ وہ طاقتِ پرواز رہی
اب نہ وہ شمعِ فروزاں، نہ وہ پروانے ہیں
اب نہ وہ بادہ گساری، نہ وہ پیمانے ہیں
اب تو بس ہم ہیں اور اک گوشۂ تنہائی ہے
تو ہمیں گردشِ دوراں یہ کہاں لائی ہے
فصلِ گل کیسی بھلا موسمِ صہبا کیسا
روئے جاناں کے نظارے کہاں مینا کیسا
لطف باقی نہ رہا اب تو کوئی جینے میں
کچھ مزہ ہے تو یہی خونِ جگر پینے میں
آس اِک ان سے ملاقات کی ہاں باقی ہے
اسی امید پہ بس جسم میں جاں باقی ہے
اب نہ وہ لطف، نہ وہ کیف، نہ وہ مستی ہے
اب نہ وہ فصلِ بہاری، نہ وہ سر مستی ہے
*****
0 Comments