مجھ سے احباب یہ کہتے ہیں قصیدہ لکھو
(اسید الحق عاصم قادری بدایونی)
مجھ سے احباب یہ کہتے ہیں قصیدہ لکھو
عید کا دن ہے مسرت کا ترانہ لکھو
آج کچھ تذکرۂ جانِ تمنا لکھو
نکہت ونور کے پیکر کا سراپا لکھو
اک قصیدہ گلِ رنگیں کے تبسم پہ لکھو
اک غزل بلبلِ شیدا کے ترنم پہ لکھو
نظم اک نازکی وشوخیِ ہم دم پہ لکھو
مثنوی کوئی درخشانیِ انجم پہ لکھو
ایک افسانہ بعنوانِ مسرت لکھو
ذکر گلشن کا کرو، گل کی حکایت لکھو
یار کے جسم شفق رنگ کی مدحت لکھو
تیغ ابرو کو لکھو، قد کو قیامت لکھو
بات کچھ آج لب وکاکل ورخسار کی ہو
زلفِ شبِ رنگ کی ہو، گیسوئے خم دار کی ہو
شیشہ وساغر ومینا مے ومیخوار کی ہو
غیر کا ذکر نہ ہو بات فقط یار کی ہو
مگر افسوس میں کس دل سے کروں یار کی بات
کس زباں سے میں کروں زلفِ طرح دار کی بات
کس قلم سے لکھوں رعنائیِ گل زار کی بات
کیسے لکھوں گل وبلبل لب ورخسار کی بات
مجھ کو آتا ہے فلسطین کے بچوں کا خیال
ان کے سینوں میں اترتے ہوئے نیزوں کا خیال
نوجواں بیٹوں کو روتی ہوئی ماؤں کا خیال
خون سے بھیگی ہوئی ان کی رداؤں کا خیال
غربِ اردن کے شہیدوں کا خیال آتا ہے
کبھی غزہ کے یتیموں کا خیال آتا ہے
ان کی مایوس نگاہوں کا خیال آتا ہے
گریہ کرتی ہوئی آنکھوں کا خیال آتا ہے
میرے بغداد پہ چھائے ہیں قضا کے بادل
ظلم کے جور کے وحشت کے جفا کے بادل
فقر وافلاس کے فاقہ کے وبا کے بادل
آفت ورنج ومصیبت کے عنا کے بادل
میرے گجرات میں انسانوں کے جلتے ہوئے سر
بے کسوں مفلسوں مجبوروں کے کٹتے ہوئے سر
بھوک اور پیاس سے بچوں کے بلکنے کا خیال
خاک اور خون میں لاشوں کے تڑپنے کا خیال
میرے کشمیر سے رونے کی صدا آتی ہے
میرے قندھار سے آوازِ بکا آتی ہے
میرے کابل میں مکانوں سے دھواں اٹھتا ہے
میرے شیشان کی گلیوں میں لہو بہتا ہے
پھر بھی احباب یہ کہتے ہیں قصیدہ لکھوں
عید کا دن ہے کوئی شوخ سا نغمہ لکھوں
کوئی نغمہ نہیں لکھ پاؤں گا یزداں کی قسم
قدس میں بہتے ہوئے خونِ شہیداں کی قسم
ہاں حمیت کو اگر اپنی مٹادوں تو لکھوں
اپنی خود داری کو سولی پہ چڑھادوں تو لکھوں
اپنی غیرت کو اگر آگ لگادوں تو لکھوں
اپنے احساس کی دولت کو لٹادوں تو لکھوں
’’جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینۂ ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما‘‘
*****
0 Comments