About Me

header ads

اک معمہ ہوں حقیقت میں نہ پوچھو کیا ہوں میں

اک معمہ ہوں حقیقت میں نہ پوچھو کیا ہوں میں

  1. (شیخ ابوسعید محمدی صفوی)

اک معمہ ہوں حقیقت میں نہ پوچھو کیا ہوں میں
قطرۂ ناچیز میں پنہاں عجب دریا ہوں میں


عالم و آدم نہ تھے وہ بھی نہ تھا کچھ بھی نہ تھا
تھا وجود اس وقت میرا کیا بتائوں کیا ہوں میں


کون ہے میرے سوا کس چیز پہ قدرت نہیں
عرش سے تا فرش ہے جلوہ مرا عنقا ہوں میں


گر چہ بے شکل اور بے صورت ہے میری ذات پاک
لیکن ہر صورت کے پردے میں چھپا بیٹھا ہوں میں


ڈھونڈ خود اپنے میں مجھ کو چھوڑ کر کون و مکاں
کھول آنکھیں دیکھ تیری صورت زیبا ہوں میں


کھل گیا راز حقیقت مرحبا بعد فنا
دونوں عالم کو ڈبودے جو وہی قطرا ہوں میں


کھول کر چشم حقیقت دیکھئے سر تا بپا
بے شک وشبہہ سعیدؔ اللہ کا جلوا ہوں میں

*****

Post a Comment

0 Comments