مستی میں گر جو چھیڑوں میں ساز عارفانہ
(شیخ ابوسعید محمدی صفوی)
مستی میں گر جو چھیڑوں میں ساز عارفانہ
بے خود ہو ایک عالم مدہوش ہوزمانہ
کیا پوچھتے ہو اب تو مستی ہے اور میں ہوں
آفاقہا بہ چشمم گردد شراب خانہ
صد مکتب و مدارس ہو جائیں خاک جل کر
کھولے جو کوئی دلبر دل کا کتاب خانہ
مجھ سے بتا سعید اب زہرہ جبیں کے صدقے
کس نے سکھایا تجھ کو انداز خسروانہ
*****
0 Comments