About Me

header ads

فن کارِ غزل، شبنم کمالی

فن کارِ غزل، شبنم کمالی
پروفیسر طلحہ رضوی برق


ہمہ قبیلۂ تو عالمان دین بودند
ترا معلم عشق کہ شاعری آموخت
سرزمین دکن کے بعد شمالی ہندوستان میں اردو زبان و ادب کے تین ہی مراکز دبستانی حیثیت سے تسلیم کئے گئے ہیں۔ دبستان دلی، دبستان لکھنؤ اور دبستان عظیم آباد۔ دہلی، لکھنؤ اور عظیم آباد اس گنگا جمنی تہذیب و تمدن کے اہم مرکز رہے ہیں جسے حکومت وقت کی سرپرستی حاصل تھی۔ بادشاہوں، امیروں اور نوابوں نے ہند اسلامی تہذیب و ثقافت کی ترجمان یعنی اردو زبان کو منہ لگایا، پروان چڑھایا اور فروغ بخشا۔ جس نے عوام و خواص دونوں کو شعر و ادب کی سطح پر ایک قدر مشترک عطا کردی۔
دہلی کے علاقہ جات اور لکھنؤ کے مضافات کی طرح عظیم آباد بھی اپنے شہر و دیہات کے ساتھ اردو شعر و ادب کا ایک عظیم دبستان ہے۔ عظیم آباد رود گنگا کے شمال و جنوب میں اپنے ذیلی مراکز کے ساتھ آسمان شعر و سخن پر ایک نظام شمسی کی طرح استوار ہے۔ ایک طرف اگر آرہ، سہسرام، گیا، نوادہ، بھاگلپور وغیرہ اپنے شعری آبشاروں اور ادبی کوہساروں پر نازاں ہیں تو دوسری طرف چھپرہ، سیوان، دربھنگہ، موتی ہاری، مظفرپور وغیرہ اپنے لالہ زار شعر و سخن اور بہار علم و فن پر مفتخر ہیں، ان مراکز کی علمی ضوپاشیوں کے طفیل اس کے قصبے اور پرگنے بھی اتنے روشن و تابناک ہوئے کہ اہل نظر ان کی جگمگاہٹ کو متعجبانہ دیکھنے لگے۔
منیر ہو یا دانا پور، بہار ہو یا پھلواری ، کواتھ ہو یا اکبر پور، سنسار ہو یا مونگیر، یہ وہ جگہیں ہیں جن کا نام تاریخ شعر و ادب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ شمالی بہار میں بھی مظفر پور وہ اہم مرکز شعرو ادب رہا ہے جس کے اردگرد دور تک قصبات و دیہات علم و فن کے فیضان سے مطلع انوار بن گئے۔ انہیں میں ایک مردم خیز بستی ’’پوکھریرا‘‘ بھی ہے جو اپنے دینی و علمی، شعری و ادبی فضا اور ماحول سے شہرت کی پرواز لے رہی ہے۔ اس بستی کو اللہ کے ایک مقبول بندے صوفی صافی عارف باللہ حضرت ابو نصر حمد اللہ کمال الدین پیشاوری رحمۃ اللہ علیہ کی دعائیں اور فیوض روحانی حاصل ہیں۔ علامہ سید الزماں پوکھریروی اسی عارف کامل کی نسبت سے خود کو حمدوی کہتے تھے۔ اور حضرت مولانا مصطفی رضا شبنم خود کو کمالی لکھتے تھے۔
مولانا شبنم کمالی کی علمی و شعری خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ اپنے معاصرین بہار میں جناب شبنم ایک پرگو اور نہایت خوشگوشاعر غزل کی حیثیت سے ممتاز رہے ہیں۔ آپ کی شاعری شہرت  سے بے پروا ایک با مقصد فنکاری ہے۔ شاعری آپ کے مزاج میں داخل ہے اور سخنوری آپ کا اوڑھنا بچھونا۔کہتے ہیں ایک اچھے شاعر کے لئے ایک اچھا انسان ہونا بھی ازبس ضروری ہے، یہ قول جناب شبنم کمالی پر کلیۃً صادق آتا ہے۔ جس نے بھی آپ کو دیکھا ہے، ان سے ملا ہے وہ ان کی پاک و صاف شخصیت، ان کی سادگی و منکسر المزاجی، خوش خلقی و زندہ دلی، غرض خوبصورتی و خوب سیرتی کا قائل ہے۔
شاعری شاعر کی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے۔ شبنم کمالی کی شاعری بھی ان کی پاکیزہ اور دلکش شخصیت کا بے غبار آئینہ ہے۔ عشق نبوی میں سرشار یہ شیریں بیان مقرر جب تحریر کی طرف متوجہ ہوا تو کیا نثر کیانظم دردانۂ تخیل کی حسین لڑیاں جھلملانے لگتی ہیں۔ آپ کی حمدیہ و نعتیہ شاعری اخلاص دینی، صحیح العقیدتی اور عشق رسول کا وہ معطر گلدستہ ہے جس سے انجمنیں مہک اٹھیں۔ آپ کی بزمیہ اور غزلیہ شاعری بھی سادگی و پرکاری کا قیمتی نمونہ ہے۔ اتنی آسان، صاف و شفاف اور رواں دواں زبان استعمال کرتے ہیں جو ان کا ہی حصہ ہے اور ان کی شناخت بھی، فکر و خیال فلسفیانہ اشکال سے پاک، خلوص و محبت کے جذبے کی عکاس، ایک مشرع شخصیت کی پابند شاعری و فنکاری کا انمول نمونہ ہے۔
آئیے ! میں ان کی شعری کاوشوں سے چند مثالیں دے کر اپنی باتوں کو مدلل کرتا چلوں۔ حمدباری تعالیٰ میں کس برجستگی سے رطب اللسان ہیں۔
خالق کون و مکاں معبود رب العالمین
ذات اقدس ہے تری بس دوسرا کوئی نہیں
پاس تو اتنا ہے کہ بندوں کی شہ رگ سے قریں
تاب جلوہ سے مگر عاجز ہے چشم دوربیں
کس آسانی اور روانی کے ساتھ فرما رہے ہیں، تلمیح کا حسن اپنا جلوہ دکھارہا ہے۔ ایک ناصح دلنشیں، خطیب دلپذیر، مرنجاں مرنج شخصیت اور فطری شاعر اپنے محبوب پیغمبر حضور رحمت اللعالمین کی نعت لکھتے ہوئے کس قدر مودب اور کتنا حسین لب و لہجہ اختیار کرتا ہے۔
جو ان کی یاد میں گزرے وہ ساعت کتنی اچھی ہے
کتاب روئے انورکی تلاوت کتنی اچھی ہے
قرار دیدہ و دل کی یہ صورت کتنی اچھی ہے
خیال ان کا ہو جس میں وہ عبادت کتنی اچھی ہے
اندھیرا چھٹ گیا، پھیلا اجالا نور وحدت کا
مرے سرکار کی صبح ولادت کتنی اچھی ہے
اس پوری نعت کو پڑھئے اور آبجوے زبان پاکیزہ کی روانی اور چشمۂ فکر و خیال کی لطافت سے محظوظ ہوئے۔ ردیف کتنی اچھی ہے، سبحان اللہ! یہی شبنمی انداز بیان گلہائے شعری کو حسین و رنگین جذبات کی حرارت سے زندگی کو تازگی و تابانی عطا کرتا ہے۔
مولانا شبنم کمالی فطرۃً غزل کے شاعر ہیں اور انہوں نے اپنی بے شمار غزلوں میں اپنی نمایاں انفرادیت کو بروئے کار لایا ہے۔ دبستان بہار کے معاصر شعراء میں ان کے کلام کی یہی خوبیاں ان کا مقام محفوظ کرتی ہیں۔
غزلوں میں ان کا سہل انداز، مترنم بحور کا انتخاب، نئی نئی زمینوں کی اختراع، موثر اور دلکش ردیفوں کا استعمال، بالعموم فارسی ترکیبوں، نامانوس بندشوں اور گنجلک بیان سے پرہیز، صاف و سادہ زبان کا لحاظ، جذبات مطہر کی عکاسی، خیالات ستودہ کی ترجمانی، افکار بلند کا اظہار اور ان سب کے پیچھے ذہن رسا کی کارفرمائی جس سے معاشرے اور سماج کو قیمتی اقدار ملیں۔ ایک مبلغ انسانیت، پیشوائے دین و ملت جب شعر و سخن کی پابند فنکاری پر آتا ہے تو اس کی شاعری حافظ و سعدی،ؔ خسروؔ و اقبالؔ، درد و نیازؔ اور ریاض و رضا کی روحوں سے کسب فیوض کرتی ہے۔
اور کیوں نہ ہو جہاں قرآن نے یتبع ھم الغاؤن کہا ہے وہیں بطور استثناء الا الذین اٰمنوا و عملو الصالحات بھی فرمایا ہے۔ یہی وہ شعراء ہیں جو زمرۂ استثناء میں آتے ہیں۔
شبنم کا کلام پڑھئے اور شیشۂ دل پر انوار حقیقی کی تجلیاں محسوس کیجئے۔ کہتے ہیں:
جنبش خامہ سے وہ شعر میں ڈھل جاتا ہے
قلب پر ہوتا ہے جس روز بھی الہام نیا
کس کے حسن و ادا کے جلوے تم میں پنہاں ہیں شبنم
رنگ حسیں پایا ہے تم نے تاروں کو شرمانے کا
جب سے آنکھوں میں وہ سمائے ہیں
رنگ پھیکا ہے ماہ کامل کا
عالم خیال نورانی کا یہ شاعراس کے باوصف اپنے قدم حقائق کی زمیں پر ہی رکھتا ہے۔ وہ اطراف و اکناف کی تلخ حقیقتوں سے آنکھیں نہیں چراتا بلکہ مردانہ وار ایک شان مومنانہ سے آنکھیں چار کرتا ہے۔
اپنی ہمت کے سہارے ہی بڑھاہوں شبنم
رنج دیتا رہا گو مجھ کو ہر اک گام نیا
اور اس پر فتن ماحول میں وہ اپنی نظر منارۂ نور پر ہی مرکوز رکھتا ہے۔
یہ دور ظلم، یہ فتنہ، یہ قتل کی سازش
خدا کے واسطے یاد رسول کرلینا
مقصد یہی ہے کہ   ؎
اگیں گے پھول پہاڑوں کی ہر بلند ی پر
وہاں بھی جمع فضاؤں کی دھول کرلینا
کیوں کہ  ؎
نسل انسانی فنا کرنے کی سازش الاماں
اسلحوں کی آگ میں سارا سمندر جل گیا
شبنمؔ غزل کے مزاج آشنا ہیں اور انہوں نے اردو غزل کے اثاثے میں اپنی کاوش فکر و فن سے بڑا قیمتی اضافہ کیا ہے۔
چھوٹی بحروں میں سہل ممتنع کے نمونے دیکھئے:
بجھتے بجھتے چراغ محفل کا  
دے گیا ہے سراغ منزل کا

شاخ گل ہے مگر بے کلی ہے 
جانے کیسی ہوا چل گئی ہے

اپنے رتبے سے واقف نہیں وہ
جس کی خاطر یہ دنیا بنی ہے

لب ہیں خاموش چشم گویا ہے
کون سمجھے گا دو دلوں کے راز

تیرگی جس بشر کے مقدر میں ہو
دیکھ  کر سوئے شمس و قمر کیا کرے
شبنم غزل کے لیے موسیقی و ترنم کی اہمیت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ آپ کی بیشتر غزلیں نہائت مترنم بحروں میں ہیں۔ 
چند اشعار ملاحظہ ہوں:
پھیر لیں آنکھیں خود ہی مجھ سے یہ بھی تم نے خوب کیا
موت نے بھی اب موقع پایا مجھ سے آنکھ ملانے کا

اپنے جذب دروں پر یقین ہے مجھے، تیز ہوگی اگر ساز الفت کی لے
چاند بن کے مرے گھر میں آجاؤگے، ذرہ ذرہ کو پھر جگمگاؤگے تم

ساقی تجھ سے آنکھ لڑانا رندوں کو مقصود نہیں
 مے خانوں کو ڈھونڈ رہے ہیں آنکھوں کے پیمانوں میں

وہ نہ آئے تھے جب تک مری بزم میں، زندگی میری خواب پریشاں نہ تھی
دل ہجوم مصائب کا مرکز نہ تھا، راحت و شادمانی گریزاں نہ تھی

منزل عشق کی راہ سے بے خبر رہ کے جو طے کرے زندگی کا سفر
جلوۂ حسن سے ہوگا محروم تر لاکھ سر اس زمیں پر جھکاتا رہے

دیکھا آپ نے با مقصد شاعری کے متنوع جلوے۔ تغزل اور شعریت دونوں کا حسین امتزاج کس طرح فکر و خیال کی دھنک روشن کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ شبنم کی غزلیں تنوع کے حسن سے مالا مال ہیں۔کیا صوری کیا معنوی، ان کے اشعار دل کشی ودل پذیری کا پورا سامان رکھتے ہیں۔
رنج و غم درد و الم کو اک ٹھکانا مل گیا
اس سے پہلے میرا دل ویران تھا سنسنان تھا
شبنمؔ نئی نئی زمینیں بھی خوب اختراع کرتے ہیں اور مضامین نو کا انبار لگادیتے ہیں۔ استعارہ و تازہ کار تشبیہ کا یہ حسن بھی ملاحظہ ہو:
وہ میری بزم میں آئے یوں نقاب کے ساتھ
ہو جیسے ابر کا ٹکڑا بھی ماہتاب کے ساتھ
دھڑکنیں دل کی بڑھی جاتی ہیں آنکھیں بند ہیں
ہے تصور میں کسی کی صورت شاہانہ آج
گیسوئے آرزو کو سنوارے گی کیا نظر
آئینہ دل کا جب نہ ہو گرد محن سے دور
گذری تھی زلف یار سے ہوکر نسیم شوق
اب تک ہے اس کو بوئے پریشاں کی جستجو
مشکل اور سخت زمینوں میںبھی جناب شبنم کمالی اپنی مشاقی و مہارت فن کا ثبوت اس آسان زبان اور رواں دواں انداز بیان سے دیتے ہیں جو بے شک شبنم کمالی کا کمال ہے، اور   ؎
ایں سعادت بزور بازونیست
تانہ بخشد خدائے بخشند ہ
چند اشعار سے اندازہ کیجئے:
جی رہا ہے عرصۂ ہستی میں جو غفلت نصیب
غیر ممکن ہے اسے دنیا میں ہو عزت نصیب
منزل ہے ایک موت کے ہیں راستے بہت
طے کرچکے ہیں راہوں کے یہ فاصلے بہت
آپ سا قسمت سے آجائے اگر دلدار ہاتھ
غیر کے آگے کوئی پھیلائے کیوں بیکار ہاتھ
قدیم خالق اکبر ہے دو جہاں حادث
کرے گا حمد خدا کس طرح بیاںحادث
لازم ہے نا خدا پہ کہ دیکھے ہوا کا رخ
منزل سے دور سب کو نہ کردے ہوا کا رخ
جناب شبنمؔ نے حروف کے لحاظ سے ردیف دار غزلیں بھی لکھی ہیں اور اساتذۂ فن کی روایتی ترتیب دیوان کے پیش نظر ٹ، ڈ،چ، ذ، ض،ڑ، ٹ، وغیرہ پر بھی توجہ دی ہے۔
الغرض صاف و سادہ شیریں زبان شبنم کی غزلوں کا نمایاں حسن ہے۔ میں اوپر ذکر کرچکا ہوں کہ شبنمؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظم نگاری میں بھی آپ نے بیشتر غزلوں کی ہی ہیئت انتخاب کی ہے۔ پھر ربع اور مسدس بند بھی اختیار کئے ہیں۔ مثنوی کی ہیئت میں صرف اک نظم ’’ تلاش‘‘ ملتی ہے۔
نظموں کے عنوان سے ہی آپ کی فکر اور سوچ کا انداز سامنے آتا ہے۔ مثلاً وقت فکر و عمل، نصاب زندگی، تازیانہ، حسن ظاہر نہ جا، نئی راہ کو ہموار کریں، تیغ و نیام، آرزوے وصال، عزائم، یاد ماضی، درس کامل، تنویر زندگی، پیغام حیات، انتظار بہار، عمل کی سرزمیں ، وغیرہ۔
میں بخوف طوالت اشعار کا انتخاب پیش نہیں کررہا ہوں ۔ ہاں نظموں کے عنوان سے ہی ایک صحت مند فکر اور تعمیری خیال حیات بداماں نظر آتے ہیں۔ قوم و ملت کو اگر کسی شاعری سے زندگی کا سبق مل جاتا ہے تو یہی بڑی بات ہے اور انمول نعمت بھی۔ اصل زندگی عشق ہے اور یہی جذبۂ عشق محرک شعر و سخن۔
از صدای سخن عشق ندیدم خوشتر
یادگاری کہ در ایں گنبد دوّار بماند

Post a Comment

0 Comments