اردو غزل پر ایک طائرانہ نظر
حفظ الرحمٰن مضطرب
اردو غزل کا مطالعہ دراصل ایک مخصوص تہذیب اور ایک مخصوص نظام معاشرت کا مطالعہ ہے اور یہ تہذیب مخصوص تاریخی اور تمدنی احوال کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی- غزل کو ان مخصوص تاریخی حالات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مخصوص تہذیب و معاشرت نے پیدا کیا اور غزل نے ان تمام احوال و کیفیات کی ایسی عکاسی و ترجمانی کی جو اپنی مثال آپ ہے گویا غزل ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہندوستان کی کئی سو سال کی تہذیبی و معاشرتی زندگی کے خدو خال، تدریجی ارتقا اور تریب کے ساتھ نظر آتے ہیں- تہذیب و اخلاق کی جو اقدار تھیں، زندگی بسر کرنے کے جو معیار تھے ، غور و فکر کے جو انداز تھے، رسوم معاشرت کے جو اطوار تھے، ان سب کا حسین و دلآویز مرقع وہ اردو غزل ہے جس کو عام طور پر محض مضامین عاشقانہ اور گل گشت مستانہ کی داستان سمجھ لیا گیا ہے-
غزل کا میدان بہت وسیع ہے ،محض عورت اور مرد کے معاملات تک محدود نہیں، غزل نظم کا ایک ضروری جز ہے، اس میں چار چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، مضمون، خیال ،زبان اور طرز ادا- غزل کو ایک ایسی کیاری تصور کریں جس میں رنگ رنگ کے خوش رنگ اور خوش بو پھول کھلے ہوں اور ہر پھول کی طراوت اور رعنائی ذوق سلیم کے لیے نظر فریب اور دل نواز ہو، جس طرح مصور کسی ایک رنگ یا لکیر کو اجاگر کرنے کے لیے مخالف اور مختلف رنگ اور لکیریں استعمال کرتا ہے اسی طرح غزل میں شاعر کسی ایک خیال کو واضح اور واضح تر کرنے کے لیے مخالف اور مختلف پیرایۂ بیان سے کام لیتا ہے اور اگر متضاد رنگ استعمال کرنے سے تصویر کی وحدت نہیں ٹوٹتی تو متضاد اور متنوع خیالات نظم کرنے سے عزل کی وحدت کیوں مجروح ہونے لگی؟
شعر چوں کہ ایک فن اور آرٹ ہے، اس لیے اس میںزبان و اسلوب کی نزاکت اور خوبی موجود ہونا بہت ضروری ہے اور شاعری بغیر تخیل کے ہو ہی نہیں سکتی، شاعری کی دو بڑی قسمیں ہیں جن میں ایک خارجی اور دوسری داخلی ہے، خارجی شاعری وہ ہے جس میں شاعر اپنی ذات سے ہٹ کر اپنے ارد گرد کی وسیع کائنات پر نظر ڈالتا ہے اور اپنے مشاہدات کو نظم کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے جس میں اس کے احساسات و جذبات کو دخل نہیں ہوتا یا غیر ارادی طور پر ہوتا بھی ہے تو اتنا خفیف کہ نہ ہونے کے برابر- داخلی شاعری کے تحت شاعر اپنے موضوعات کی تلاش خود اپنی ذات کے اندر یعنی اپنے احساسات ، خیالات اور ذاتی تجربات کے دائرے میں ہی کرتا ہے جیسے میرؔ کی غزلیہ شاعری جو داخلی شاعری کی بہترین مثال ہے - داخلی شاعری کے چند اہم عناصر مثلاً پاکیز ہ جذبات، حسن بیاں، حقیقت پسندی، صداقت شعاری، مضمون کے متناسب انتخاب و ترتیب الفاظ اور فطری میلان کے مطابق طول و اختصار کلام میں اور قوت پیدا کر دیتے ہیں- داخلی شاعری اکثر غیر شعوری طور پر فلسفیانہ اور متصوفانہ شاعری بن جاتی ہے- خارجی شاعری میں شاعر کے اپنے محسوسات، خیالات اور ذاتی جذبات سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا گو اس کی ذات کی جھلک ضرور موجود ہوتی ہے-
یہ صحیح ہے کہ فارسی کے اثرات اردو غزل پر بہت گہرے اور ہمہ گیر ہیں لیکن وہ خیالات جن کے زیر اثر اردو غزل کا نشو و نما ہوا ہندوستان کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور جن کی بدولت یہاں کی ساری زندگی بدل گئی، ہر شعبہ میں انقلاب رونما ہوئے، طور طریقے بدلے، معیار بدلے، پرانی اقدار ایک نئے سانچے میںڈھل گئیں اور ان سے زندگی کے ہر شعبہ میں ایک جدت پیدا ہو گئی اور نئے رجحانات، نئی تہذیب ، نئی ثقافت اور نئے نظام معاشرت کو وجود میں لانے کا باعث بنے-مسلمانوں کی آمد سے قدرتی طور پر ان کے اثرات یہاں کے لوگوں پر اور یہاں والوں کے اثرات ان پر پڑے جن میں عرب بھی تھے ایرانی بھی، مغل بھی تھے تورانی بھی، ترک بھی تھے افغانی بھی، غرض یہ کہ مختلف تہذیبوں کے علم بردار ایک جگہ جمع ہو گئے تھے- ان کی اپنی اپنی مخصوص معاشرت تھی، مخصوص رجحانات تھے اور انہوں نے اپنی انہی خصوصیات کے ساتھ نئی تہذیب اور ثقافت کی تعمیر و تشکیل میں حصہ لیا- اس نئی تہذیب و ثقافت نے فنون لطیفہ پر بھی اثر ڈالا اور آگے چل کر اردو غزل کو بیدار کیا-چوںکہ ہندوستان آنے والوں میں اکثر ایران ہو کر آئے تھے اس لیے ایرانی کلچر و تہذیب اور ایرانی مذاق ان کی طبیعت ثانیہ بن گیا یہی وجہ ہے کہ بادی النظر میں وہ تہذیب جس نے غزل کو پیدا کیا پوری طرح ایرانی رنگ میں رنگی ہوئی نظر آتی ہے، حالاں کہ وہ در حقیقت مختلف تہذیبوں کے امتزاج سے صورت پذیر ہوئی تھی -
صنف عزل کا بنیادی موضوع معاملات عشق کی مختلف کیفیات کی ترجمانی ہے، اس لیے غزل کو عام طور پر عشق و محبت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مختلف ذہنی کیفیات اور جذباتی واردات کا ترجمان سمجھ لیا گیا ہے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ غزل میں زندگی کے متنوع پہلوئوں کا ادراک اور اس کی ترجمانی موجود ہے- فلسفیانہ حقائق کی گہرائیاں بھی ہیں، سماجی و معاشرتی تقاضوں کا احساس بھی ہے، اس میںتاریخی واقعات بھی ملتے ہیں، ماحول کی عکاسی بھی ہوتی ہے اور اس میں جمالیاتی پہلو بھی نظر آتے ہیں، یہ اس کا حسن ہے کہ یہ غم روز گار کو غم جاناں بنادیتی ہے-
آلام روز گار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا
غزل چونکہ شاعری کی سب سے زیادہ لطیف صنف ہے اس لیے اس کی زبان، انتخاب الفاظ، اسلوب اور طرز ادا بھی لطیف، نازک، سادہ اور صاف ہونے چاہئیں- مضمون کی نزاکت کی مناسبت سے الفاظ کی بھی لطافت و نزاکت از حد ضروری ہے-غزل کی تاثیر کا انحصار انہی پر ہے اور یہ کام مشق اور محنت چاہتا ہے مثلاً
ایک ہلکا سا تبسم اس قدر ہلکا کہ بس
بس یہی یا قیمت نقد و دل و جاں اور بھی؟
یہاں ایک لفظ’’ بس ‘‘ نے وہ لطف پیدا کر دیا کہ بس- اس کی جگہ کوئی اور لفظ استعمال ہوتا تو یہ وجدانی اثر پیدا نہیں ہو سکتا تھا-
اردو کے لیے اگرچہ شمالی ہندوستان میں زمین تیار ہوئی لیکن ابتدا میں اسے فروغ دکن میں ہوا، ابتدائی دور میں حالات کچھ ایسے پیدا ہوئے کہ شمالی ہندوستان سے زیادہ دکن میں اردو زبان و شاعری کے لیے ماحول پیدا ہوا، اسی حقیقت کا اعتراف میرؔ نے اس طرح کیا ہے:
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
دکن میں غزل کی ترقی کا زمانہ ولیؔ اور سراجؔ کا زمانہ ہے، دکن میں مغلوں کا غلبہ ہوا تو ٹھیٹھ ہندی کا اثر کم ہوتا گیا اور فارسی کی آمیزش نے اس میں زیادہ سادگی، سلاست و لطافت ، رنگینی و نزاکت کی خصوصیات پیدا کر دیں، اس طرح انداز بیان اور طرز اظہار میں زیادہ سے زیادہ بانکپن آتا گیا، رعنائی رونما ہوتی گئی اور دلکشی بڑھتی گئی -ولیؔ کے یہاں فارسی روایات کے اثرات ہندی کے ساتھ ملے جلے نظر آتے ہیں اور جو شیرینی و گھلاوٹ ولیؔ کے یہاں ملتی ہے وہ اس فارسی اورہندی کی آمیزش کا نتیجہ ہے- شعر کو ردیف اور قافیے سے سجایا، ردیف واردیوان بنائے، فارسی بحریں اردو میں لائے،فارسی تراکیب اور فارسی مضامین کو داخل کیا- ولیؔ کی غزلوں کا بیشتر حصہ عشق مجازی کی کیفیات کی ترجمانی پر مشتمل ہے، ان کی غزلوں میں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حسن صنف لطیف کا جمال نظر آتا ہے، انہوں نے جو کچھ محسوس کیا اور جس مخصوص حسن سے وہ متاثر ہوئے ہیں اس کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے- ان کی غزلوں میںخارجی حسن کی کیفیت کا بیان بھی ہے اور ساتھ ہی آفاقی واردات و کیفیات کی ترجمانی بھی:
خوب رو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ سوں غلام کرتے ہیں
عجب کچھ رنگ رکھتا ہے شب خلوت میں گل رو سوں
سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
اردو کی ابتدائی شاعری تصوف کے رنگ میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے اور یہ وہ زمانہ تھا جب شاعری اور درویشی مترادف الفاظ سمجھے جاتے تھے- تصوف کے مضامین کو اس طرح بیان کرنا کہ غزل کی لطافت اور معرفت الٰہی کے مضامین عشق مجازی سے بالکل بے میل نہ ہو جائیں، یہی قد ما کا کمال تھا- اردو میں ولیؔ سے لے کر دردؔ تک اساتذہ کے کلام کو دیکھیے، شراب کے مضامین ان بزرگوں کے یہاں بکثرت ملتے ہیں مگر بحیثیت مجموعی ان کے یہاں شراب کے مضامین سے وہی معرفت کی شراب مراد ہے- یہ مضامین تغزل کے دائرے میں بیان ہوتے ہیں- جیسے ولیؔ مسئلہ جبر کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
آلودہ کیوں نہ ہوے دامان پاک زاہد
جب دست نازنین میں جام شراب آئے
غزل کا ہر شعر اپنی جگہ مکمل ہوتا ہے، اس میں صرف ایک خیال یا ایک تاثر نظم کیا جاتا ہے اور عام طور پر ایک شعر کا دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- شاعر کے دماغ میں ایک وقت میں یکے بعد دیگرے مختلف خیالات موجزن ہو تے ہیں اور وہ قوت بیان و اظہار کے ذریعہ ہر خیال کو الگ الگ شعر میں نظم کر کے غزل کی شکل دیتا ہے- ظاہر ہے کہ دو مصروعوں میں ایک طویل مضمون کو واضح طور پر ادا کر نا ایک مشکل امر ہے ؎
ان سے پری وش کو نہ دیکھے کوئی
مجھ کو میری شرم نے رسوا کیا
اور بعض اوقات تو صرف چند ہی لفظوں میں مثلاً
دل کا تڑپنا ہائے نہ پوچھ
وصل کی شب اور آخر شب
رمز حقیقت حسن کی ذات
عشق اسی کی تصریحات
اور یہی سبب ہے کہ پروفیسر مسعود احمد رضوی صاحب نے کہا کہ ’’غزل کا ایجاز ہی اس کا اعجاز ہے‘‘ غزل کی صنف مشرق اور مشرق کے بھی چند خاص ممالک کے ساتھ مخصوص ہے- اپنی موجودہ صورت تو اس نے ایران میں اختیار کی- یہ مشرقی انداز، یہ مشرقی مزاج، یہ مشرقی ذہانت و فطانت، یہ مشرقی آہنگ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فضا جو غزل میں نظر آتی ہے وہ مخصوص تہذیبی و معاشرتی حالات کا نتیجہ ہے- مشرقی آب و ہوا افراد کو بڑی حد تک جذباتی بناتی ہے ، خار جیت کا شعور ان کے یہاں کم ہوتا ہے اور شدت احساس کی وجہ سے زندگی کے ہر پہلو کو داخلی انداز میں دیکھتے ہیں، داخلیت تفصیل و توضیح کو مانع ہوتی ہے اور اسی لیے اختصار و اجمال غزل کا لازمی جز اور اعلی جو ہر ہے-غزل کی صنف چوں کہ ہمارے مزاج سے ہم آہنگ ہے، ہماری تہذیبی و معاشرتی روایات سے گہرا تعلق رکھتی ہے، ہماری قومی و نسلی ذہانت کے مظہر ہے ،اسی لیے اس کا اثر ہر فرد کے دل و دماغ پر فوری اور براہ راست ہوتا ہے اور اسی کے سبب غزل دوسری اصناف کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ مقبول رہی ہے، غزل ایک بڑے تہذیب یافتہ شعور کی تخلیق ہے، اس میں صورت و ہیئت اور جمالیاتی اقدار کا خیال ہمیشہ فنکار کے پیش نظر رہتا ہے جس سے جمالیاتی تصور مرتب ہوتا ہے-غزل مسلسل بھی ہوتی ہے غیر مسلسل بھی، مردف بھی ہوتی ہے غیر مردف بھی( یعنی صرف مقفّی) مسلسل غزل میں ایک مسلسل مضمون شرح و بسط کے ساتھ متعدد اشعار میں بیان کیا جاتا ہے - مثلاً:
اے تازہ واردان بساط ہوائے دل
زنہار گر تمہیں ہوس نان و نوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش حقیقت نیوش ہے
یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامان باغبان و کف گل فروش ہے
لطف خرام ساقی و ذو ق صداے چنگ
یہ جنت نگاہ وہ فردوس گوش ہے
یا صبح دم جو دیکھیے آتو بزم میں
نے وہ سرور وشور نہ جوش و خروش ہے
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
غیر مسلسل غزل میں ہر شعر میں ایک پورا مضمون ادا کیا جاتا ہے اور ایک شعر دوسرے شعر سے علیحدہ ہوتا ہے -
مردف غزل میں قافیہ اور ردیف دونوں کا التزام کیا جاتا ہے اس طرح کہ پہلے شعر کے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف کی قید لازم ہوتی ہے، اسے مطلع کہتے ہیں- بعض غزلوں میں ایک سے زیادہ بھی مطلع ہوتے ہیں-پھر آخر تک سارے اشعار کی ہیئت ایسی ہی ہوتی ہے ،غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص ظاہر کرتا ہے مقطع کہلاتا ہے- بعض شعرا اس کا التزام کرتے ہیں کہ مقطع میں ایسا مضمون ادا ہو جس میں تخلص کی معنویت کا بھی فائدہ ہو سکے- حکیم مومن خان کو اس بات میں خصوصی امتیاز حاصل ہے، ان کا مقطع بالعموم دو معنی میں ہوتا ہے-
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
بے نام آرزو کا تو دل کو نکال دیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
بعض غزلیں ردیف کی قید سے آزاد ہوتی ہیں ،ان میں صرف قافیہ ہی ہوتا ہے، اسے غیر مردف غزل کہتے ہیں- غزل میں مطلع اور مقطع ہونا لازمی نہیں ہے البتہ مطلع اور مقطع سے حسن زیادہ ہو جاتا ہے اور غزل کی ہیئت مکمل ہو جاتی ہے -
غزل میں ایک انداز دلبری، ایک طرز دلربائی ہے، خواص و عوام ، امیر و غریب سب کے دامن دل کو اس نے ایک مخصوص انداز میں اپنی طرف کھینچا ہے- جہاں صوفیوں کے حلقوں میں اس نے وجد و کیف کی بارش کی ہے وہیں رندوں کی محفلوں میں نشاط و طرب کا رنگ بھی جمایا ہے، زاہدوں اور پاکبازوں کے دلوں میں جاں گزیں بھی ہوئی ہے، غزل میں مواد اور ہیئت ، موضوع اور صورت کی ایک متناسب اور متوازن ہم آہنگی سے ہی تاثیر کی ہمہ گیری کا ظہور ہوتا ہے- صنف غزل اور اس کے منفرد اشعار میں جو عناصر اس صورت و ہیئت کی تشکیل میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں ان میں اختصار و اجمال ،رمز و ایما، اشارہ و کنایہ، تشبیہ و تمثیل کو بڑا دخل ہے- اختصار و اجمال صنف غزل کی لازمی خصوصیت ہے- رمزیت وایمائیت کے بغیر سارا جمالیاتی تاثر ختم ہو جاتا ہے ،اس کے لیے فنکاروں نے بڑی کاوش کی ہے ، اگر یہ کاوش نہ ہوتی تو غزل کی روایت میں محبت و الفت ، حسن و قبح، خوشی و غم، عہد و وفا، عقل و جنون، دیر و حرم، دیر و خانقاہ ،گل و بلبل، شمع و پروانہ، گلچیں و باغباں، گل و صحرا، قیس و لیلیٰ ، فرہاد و شیریں، وامق و عذرا، طور و موسی، یوسف و زلیخا اور اس طرح کے نہ جانے کتنے اشاروں، تمثیلوں، تلمیحوں اور تملیحوں کا وجود نہ ہوتا، موضوع و مواد میں وسعت و ہمہ گیری پیدا نہ ہوتی اور اظہاربیان میں حسن و دلکشی بھی نہ پائی جاتی - بقول مرزا غالبؔ:
مقصد ہے نازو غمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ عناصر غزل، غزل کو رنگ و روپ دینے بلکہ اسے وجود عطا کرنے میں اہم کردار نبھاتے ہیں اور جب تک نازو غمزہ کی گفتگو میں دشنہ و خنجر اور مشاہدۂ حق کی گفتگو میں بادہ و ساغر کا لطیف حجاب حائل نہ کیا جائے وجدانی ذوق کی آتش شوق میں نہ تو شدت آ سکتی ہے اور نہ ہی غزل میں حسن و دلکشی اور وجد آفرینی کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے-
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشاے لب بام ابھی
رہی اور راہ طلب کتنی باقی
یہ سوچیں گے دیر و حرم سے نکل کر
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برانہ مانے
تیرے صنم کدے کے بت ہو گئے پرانے
غزل نے متنوع اور رنگا رنگ عشقیہ کیفیات کو اپنے دامن میں جگہ دے کر ان جذباتی تقاضوں کو پورا کیا ہے جو کسی اور صنف شاعری سے پورے نہیں ہو سکتے ہیں، ان عشقیہ کیفیات میں آفاقیت پائی جاتی ہے- ولیؔ ،میرؔ ، سوداؔ ،دردؔ ،غالبؔ اور مومنؔ نے جن عشقیہ کیفیات کو پیش کیا تھا وہ آج بھی ہمیں خود ہماری اپنی کیفیات معلوم ہوتی ہیں-
دیکھنا تقریر کی لذت کو اس نے جو کہا
میں نے یہ جانا کہ گویایہ بھی میرے دل میں ہے
آخری دور میں جب علم و ادب میں مشرقی فنکاروں کی صناعیوں کے ساتھ ساتھ مغربی اہل قلم کی عقل و دانش کا پیوند لگا تو واعظ و خانقاہ، رند و میخانہ کے مضامین کی جاذبیت کم ہونے لگی جس کے نتیجے کے طور پر غزل کی مقبولیت پر اثر پڑنا ناگزیر تھا- اس دور میں اقبال نے اردو غزل میں تصوف کے اس رنگ و پہلو کا آغاز کیا جس کا اب تک ہماری شاعری میں فقدان تھا- ترک دنیا، عزلت گزینی اور زندگی کی جدو جہد سے فرار کا نام تصوف رکھ لیا گیا تھا-اب تک ہمارے شعرا نے تصوف کی روشنی میں زندگی اور فلسفہ کو نہیں دیکھا تھا- اقبالؔ نے فلسفہ تاریخ ، ارتقائے تمدن اور اجتماعی زندگی پر تصوف کی روشنی ڈالی، اقبال نے کہا :
حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ ساز
زمانہ باتو نہ سازد تو باز مانہ ستیز
انسان کی فطرت تنوع پسند واقع ہوئی ہے، اس کی طبیعت میں انتشار بھی فطری ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ غزل میں تنوع و رنگار رنگی کی خصوصیات پاتا ہے تو اس کے ذہن کو سکون حاصل ہوتا ہے- موجودہ دور بے پناہ مصروفیتوں کا دور ہے، انسان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ طویل اور مسلسل نظمیں لکھ سکے اور ان میں خیالات، احساسات اور جذبات کا شرح و بسط کے ساتھ اظہار کر سکے، اس کی مشغولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا ہی چلا جا رہا ہے، دوسری طرف ’’ کار جہاں‘‘ پڑھنے اور سننے والے کے لیے بھی ’’ دراز‘‘ ہو کر رہ گیا ہے- اس لیے شاعر کو غزل کا سہارا لینا پڑتا ہے- شاعر غزل کے دو مصرعوں میں اپنے خیالات کو بہت کم وقت میں پیش کر کے اپنے فطری اور ذہنی اضطراب کی تسکین کر لیتا ہے اور قاری یا سامع کے دل کی خلش دور کر دیتا ہے- عام طور پر غزل میں وہ سارے مضامین ادا کیے جا سکتے ہیں اور کیے جاتے ہیں جن کا تعلق انسان کے فطری احساس ،ذہنی میلان ، طبعی رجحان اور قلبی وجدان سے ہے- کوئی بھی شخص کسی بھی عالم میں ہو غزل میں ایک نہ ایک شعر ضرور ایسا نکل آئے گا جو اس کے دلی جذبات کی ترجمانی کر رہا ہوگا اور یہ حقیقت ثابت ہو جائے گا کہ
…ع…
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
0 Comments